عمران خان :
فارن فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے قریبی ساتھیوں کے خلاف نئے شواہد سامنے آگئے۔ جس کے بعد اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت ایک علیحدہ انکوائری رجسٹرڈ کرکے عارف نقوی اور طارق شفیع سے تفتیش کے ذریعے پارٹی قیادت کے حوالے سے براہ راست ثبوت حاصل کرنے کا کام تیز کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ روز ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی کی ٹیم نے پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس میں عمران خان کے قریب ترین ساتھی صنعتکار طارق شفیع کو بینک کھاتوں سے رقوم کی منتقلی کے 3 برس کے ریکارڈ کے ساتھ طلب کیا۔ تاہم وہ ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ جس کے بعد ایف آئی اے کی ٹیم نے پیش نہ ہونے کی صورت میں قوانین کی خلاف ورزی کی کارروائی کی تیاری شروع کردی ہے۔ جس کیلئے ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی سے بھی ہدایات لی جا رہی ہیں۔
’’امت‘‘ کو ایف آئی اے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ فارن فنڈنگ کے مقدمہ میں ایف آئی اے کراچی کی ٹیموں نے تحقیقاتی امور تیزی سے نمٹانے شروع کر دیئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک سرکل کراچی میں درج مقدمہ الزام نمر 14ú2022 کی تفتیش میں عارف نقوی کی کمپنیوں کے ذریعے کراچی سے 4 ارب روپے سے زائد کے فنڈز دبئی منتقل ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ جس پر ایک علیحدہ انکوائری نمبر 07/2023 اینٹی منی لانڈرنگ سرکل کراچی میں درج کرلی گئی ہے۔
تفتیش میں انکشاف ہوا کہ ایک نجی بینک جو اب ایک دوسرے بینک میں ضم ہوا ہے، کے اکائونٹس سے بے نامی ذرائع سے ملنے والا فنڈ دبئی میں عارف نقوی کی کمپنی میں منتقل کیا گیا۔ جس پر تحقیقاتی کام تیز کر دیا گیا ہے اور عارف مسعود نقوی کی کمپنی کے ایس ای کو ریکارڈ کی فراہمی کے لئے ایک تفصیلی مراسلہ بھی ارسال کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے بقول ایف آئی اے اینٹی منی لانڈرنگ سیل کراچی نے غیر قانونی طریقے سے حاصل کیے گئے 4 ارب سے زائد کی رقم کو ابراج گروپ کے سربراہ کی جانب سے مختلف کمپنیوں کے نام پر کراچی کے بینکوں سے دبئی منتقل کرنے کی انکوائری شروع کر دی ہے۔ یہ انکوائری اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کی جا رہی ہے۔
ذرائع کے بقول اس کا پس منظر یہ ہے کہ پہلے سے درج مقدمہ کی تفتیش میں جب ریکارڈ کی چھان بین کی گئی تو معلوم ہوا کہ دبئی میں گزشتہ برس12 دسمبر کو دبئی فنانشنل سروسز اتھارٹی (ڈی ایف ایس اے ) نے ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی پر 13 کروڑ 55 لاکھ 60 ہزار امریکی ڈالر جرمانہ عائد کیا تھا۔ جو کسی بھی فرد پر عائد کیا جانے والا سب سے زیادہ جرمانہ ہے۔ عارف نقوی پر الزام تھا کہ اس نے ابراج گروپ کے سربراہ کے طور پر کئی غلط اقدامات کیے۔ جن میں سرمایہ کاروں کی رقم کو بنیادی سرمائے (ورکنگ کیپٹل)کے طور پر دکھانا بھی شامل تھا۔
دبئی کے فنانشل ٹربیونل کے فیصلے پر ابراج گروپ نے اپیل کی تھی۔ جو مسترد کر دی گئی تھی۔ ایف آئی اے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ رقم کے ایس بی سیکورٹی سے کے ایس ای کمپنی کے اکاونٹ میں منتقل ہوئی۔ یاد رہے کہ کے ایس ای پاور کمپنی کے طور پر دبئی میں رجسٹرڈ ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق کے ایس ای کمپنی نے پاکستان میں غیر قانونی طریقے سے اکائونٹ کھولا۔ جبکہ نجی بینک نے اکائونٹ کھول کر اسٹیٹ بینک کے قانون کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ ایف آئی اے منی لانڈرنگ سرکل نے کیس کی تفتیش کیلیے عارف مسعود نقوی اور بینکوں کو 20 مارچ کو ریکارڈ سمیت پیش ہو نے کا نوٹس بھی جاری کردیا ہے۔ یاد رہے کہ عارف نقوی اپریل 2019ء میں لندن میں گرفتاری کے بعد سے وہاں نظر بندی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ امریکا نے فراڈ کے مقدمے میں ان کی تحویل کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ جس پر عدالت میں کارروائی چل رہی ہے۔
دوسری جانب گزشتہ روز اسی مقدمہ میں نامزد طارق شفیع کو بھی ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کی جانب سے ووٹن کرکٹ کلب لندن سے آنے والے فنڈز کے علاوہ 2010ء سے 2014ء تک ان کے بینک کھاتوں میں بیرون ملک سے آنے والی تمام رقوم اور ان کے کھاتوں سے یہ رقوم آگے دیگر کھاتوں میں منتقلی کے ریکارڈ کے ساتھ طلب کرلیا گیا ہے۔ تاہم اس بار بھی طارق شفیع پیش نہیں ہوئے۔ جس پر ٹیم کے اعلیٰ افسران نے قوانین کی خلاف ورزی پر کارروائی کی اجازت طلب کرلی ہے۔ جس کے بعد طارق شفیع کیلئے مسائل میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق گزشتہ برس 5 اکتوبر کو فارن فنڈنگ تحقیقات میں سید عارف مسعود نقوی اور محمد رفیع لاکھانی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس انکوائری کے دوران ثابت ہوا کہ وولٹن کرکٹ لمیٹڈ کے اکاؤنٹ سے 5 لاکھ 57 ہزار امریکی ڈالر طارق شفیع کے کراچی میں غیر ملکی بینک کی برانچ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے۔ یہ رقم 7 مئی 2013ء کو کراچی کے بینک اکاؤنٹ میں موصول اور 8 مئی کو اسی اکاؤنٹ سے پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد کے نجی بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی گئی۔
مقدمہ کے مطابق طارق شفیع کے اسی اکاؤنٹ میں برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ کمپنیوں سے18 لاکھ ڈالرز سے زائد موصول ہوئے۔ تمام ٹرانزکشن مختلف کمپنیوں اور افراد کی ملی بھگت سے کی گئیں۔ ملزمان پر فنڈز کی اصل نوعیت، مقام، نقل و حرکت اور ملکیت چھپانے کا بھی الزام ہے۔