اسد قیصر مسلسل زیر عتاب ہیں، صوابی میں پی ٹی آئی کمزور ہونے لگی،فائل فوٹو
اسد قیصر مسلسل زیر عتاب ہیں، صوابی میں پی ٹی آئی کمزور ہونے لگی،فائل فوٹو

استعفے کی خطا اسد قیصر کی سزا بن گئی

امت رپورٹ :
قومی اسمبلی کی اسپیکر شپ سے استعفیٰ دینا اسد قیصر کی ایسی ’’خطا‘‘ ٹھہری۔ جس کی ’’سزا‘‘ وہ آج بھی بھگت رہے ہیں اور مسلسل پارٹی چیئرمین عمران خان کے زیر عتاب ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے موقع پر اسد قیصر نے جلد بازی میں استعفیٰ دے کر بزدلی دکھائی تھی۔

عدم اعتماد میں اسد قیصر کا کردار

گزشتہ برس 9 اپریل کو قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے نون لیگ کے رہنما ایاز صادق کو نشست سنبھالنے اور وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کو کہا تھا۔ بعد ازاں کامیاب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو گھر بھیج دیا گیا تھا۔ یوں وہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بن گئے۔ جنہیں پارلیمنٹ نے خود معزول کیا۔ اس معزولی سے پہلے سارا دن ووٹنگ سے بچنے کے لیے تاخیری حربے استعمال کیے جاتے رہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے ڈیڈ لائن دے رکھی تھی۔ اس دوران وزیر اعظم ہائوس میں بیٹھے عمران خان ہدایات جاری کرتے رہے۔

کہا جاتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کارروائی کو التوا میں ڈالنے سے متعلق اسپیکر قومی اسمبلی اور ڈپٹی اسپیکر نے جو کچھ کیا۔ اس کی ہدایات انہیں وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے موصول ہو رہی تھیں۔ تاہم اس دوران ایک ایسا اعصاب شکن مرحلہ آیا۔ جب خاص طور پر اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے بھانپ لیا کہ اگر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے میں مزید تاخیر کی گئی تو سپریم کورٹ کی حکم عدولی کا ملبہ سب سے پہلے ان پر گرے گا۔ لہٰذا انتہائی نروس اسد قیصر، عمران خان سے ملاقات کے لئے وزیر اعظم ہائوس گئے۔ سپریم کورٹ کی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے چند گھنٹے پہلے ان کی واپسی ہوئی۔

بعد ازاں حواس باختہ اسپیکر قومی اسمبلی کو استعفیٰ دیتے ہوئے ٹی وی اسکرینوں پر پوری قوم نے دیکھا۔ استعفیٰ دیتے ہوئے اسد قیصر کا کہنا تھا ’’پاکستان کی خود مختاری اور ملکی سلامتی کے لئے عمران خان کی عظیم جدوجہد پر میں ہزاروں عہدے قربان کر سکتا ہوں‘‘۔ اس اعلان سے یہی سمجھا گیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ عمران خان سے مشاورت سے دیا تھا۔ تاہم حقائق اس کے برعکس تھے۔

پی ٹی آئی کے معتبر ذرائع نے بتایا کہ سپریم کورٹ کی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے چند گھنٹے پہلے اسد قیصر نے وزیر اعظم ہائوس میں عمران خان سے جو ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر عمران خان نے اسد قیصر کو ڈٹ جانے کا کہا تھا اور ہدایت کی تھی کہ وہ فوری استعفیٰ نہ دیں۔

عمران خان کی ناراضگی

ذرائع کے بقول تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی معزولی کو ایک برس ہونے کو آیا۔ تاہم چیئرمین پی ٹی آئی کے دل میں اب تک اسد قیصر کا استعفیٰ پھانس کی طرح چبھ رہا ہے اور وہ آج بھی نہ صرف اسد قیصر سے نالاں ہیں۔ بلکہ وقتاً فوقتاً ان پر اپنا غصہ بھی نکالتے رہتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ڈیڑھ دو ماہ پہلے بھی ایک موقع پر اسد قیصر کو عمران خان کے تلخ طعنے سننے پڑے۔ لیکن ’’گالیاں کھاکے بھی بے مزہ نہ ہوا‘‘ کے مصداق حسب معمول اسد قیصر نے پارٹی چیئرمین کی جلی کٹی باتیں خاموشی سے سنیں اور کھسک لئے کہ اختلاف کا سیدھا مطلب تاریک سیاسی مستقبل ہے۔

ذرائع کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب صوابی میں ایک چھوٹے موٹے جلسے کا ویڈیو کلپ اسد قیصر اپنے موبائل فون میں عمران خان کو دکھاکر نمبر بڑھانا چاہتے تھے۔ تاہم ویڈیو دیکھنے کے بجائے عمران خان نے انہیں ڈانٹ دیا اور استعفے کی بات یاد دلاکر کھری کھری سنا ڈالیں۔ اس واقعہ کے عینی شاہدین میں پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے آرگنائزر فضل خان بھی شامل ہیں۔

ذرائع کے بقول عمران خان سمجھتے ہیں کہ اسد قیصر نے اسپیکر شپ سے استعفیٰ دے کر ان کے پلان کو سبوتاژ کرنے میں بنیادی رول ادا کیا تھا۔ کیونکہ چیئرمین پی ٹی آئی اس معاملے کو مزید دو تین دن لٹکانا چاہتے تھے۔ چاہے اس کے نتیجے میں کتنا ہی آئینی بحران کیوں نہ پیدا ہو جائے۔ لہٰذا ان کی خواہش تھی کہ اسد قیصر ابھی ڈٹے رہیں اور جب تک عمران خان کی طرف سے گرین سگنل نہ آجائے، وہ استعفیٰ نہ دیں۔ اس کے برعکس خوفزدہ اسد قیصر نے سپریم کورٹ کی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے محض چند گھنٹے پہلے استعفیٰ دے کر خود کو محفوظ بنالیا تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ عمران خان آج بھی اسد قیصر کو کہتے ہیں کہ جلد بازی میں استعفے کے سبب ان کی حکومت ختم ہوئی۔ اگر وہ دو تین دن صبر کرلیتے تو عمران خان کو اپنے پلان کے بقیہ حصے پر عملدرآمد میں آسانی ہوجاتی۔ جس میں جنرل باجوہ کو ہٹاکر اپنی پسند کا آرمی چیف لانا شامل تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ عمران خان اس حوالے سے چلنے والی خبروں کی تردید کرتے ہیں۔ اسد قیصر کو عمران خان یہ طعنہ بھی دیتے ہیں کہ ’’رات گئے عدالتوں کے کھلنے کی اطلاع ملنے، پولیس کی گاڑیوں اور قیدی کی وین کا سن کر تم ڈر گئے تھے‘‘۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس 9 اپریل کی شب جب تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے سے متعلق سپریم کورٹ کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے نزدیک تھی اور تحریک انصاف کے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر تحریک عدم اعتماد کی کارروائی شروع کرانے میں مسلسل تاخیر کر رہے تھے تو سپریم کورٹ پاکستان اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے آدھی رات کو عدالتیں کھولنے کی تیاری کرلی تھی۔ جبکہ پولیس کی گاڑیاں حرکت میں آچکی تھیں اور قیدیوں کو لے جانے والی وین بھی پہنچ چکی تھی۔ تاہم متوقع کارروائی سے قبل ہی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لئے تاخیری حربے استعمال کرنے والے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے استعفیٰ دیدیا تھا۔ اس سے قبل اس نوعیت کی خبریں چل رہی تھیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو تبدیل کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔

عمران خان کی مسلسل بے اعتنائی نے پارٹی سرگرمیوں پر اسد قیصر کی توجہ کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں صوابی میں پی ٹی آئی کمزور ہو رہی ہے۔ رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں تحریک انصاف کو اس وقت شدید دھچکہ لگا جب صوابی کے مرغوز گائوں میں ایک مقامی جرگے کے ارکان نے پارٹی کی ناکام پالیسیوں پر جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کیا۔

مرغوز قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کا آبائی گائوں ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اندرونی اختلافات اور رکاوٹوں نے بھی علاقے میں پی ٹی آئی کو کمزور کر دیا ہے۔ جرگے کے ارکان سرور خان لالہ، گوہر علی، اکبر سید اور علاقے کی ایک بااثر شخصیت مبارک خان نے اپنے حامیوں کے ہمراہ پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کی۔