عالمی میڈیا میں چرچا ہونے پر اچانک اکاؤنٹس بحال کر دیے گئے- معاملے پر مٹی ڈالے آٹھ برس گزر چکے-فائل فوٹو
 عالمی میڈیا میں چرچا ہونے پر اچانک اکاؤنٹس بحال کر دیے گئے- معاملے پر مٹی ڈالے آٹھ برس گزر چکے-فائل فوٹو

جب زلمے خلیل زاد کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات کی گئیں

امت رپورٹ :
یہ ستمبر دو ہزار چودہ کی بات ہے۔ ایک مقامی بلاگر ویانا میں واقع وزارت انصاف کی عمارت کے قریب سے گزرا تو کچرے کی ٹوکری میں پڑے ردی کے چند کاغذ اس کے ہاتھ لگے جو دراصل چند قانونی دستاویزات تھیں، جنہیں آسٹریا کی وزارت انصاف نے کچرے کے طور پر پھینک دیا تھا۔

بلاگر نے دستاویز کو سرسری پڑھنا شروع کیا تو اس کی حیرانی بڑھنے لگی ۔ قانونی دستاویزات سے معلوم ہوا کہ صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں افغانستان، عراق اور اقوام متحدہ میں امریکی سفیر رہنے والے زلمے خلیل زاد سے منی لانڈرنگ کے حوالے سے تفیش کی جارہی ہے۔ تاہم اس تفیش کو اس قدر خفیہ رکھا گیا تھا کہ ڈیڑھ برس گزرنے کے باوجود میڈیا کو کانوں کان خبر نہ ہوسکی۔

یہ انکشاف ہونے کے بعد آسٹریا کے پروفائل میگزین نے اس پر اسٹوری شائع کی۔ قانونی دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے میگزین نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مئی دو ہزار تیرہ میں خلیل زاد کے خلاف شروع کی گئی منی لانڈرنگ کی تفیش کے حوالے سے امریکی حکام نے ویانا کے استغاثہ سے قانونی مدد مانگی تھی۔ امریکی درخواست پرعمل کرتے ہوئے آسٹریا نے نا صرف امریکی حکام کو قانونی مدد فراہم کی۔ بلکہ ویانا کی ایک عدالت نے فروری دو ہزار چودہ میں خلیل زاد کی اہلیہ چیرل بینارڈ کے آسٹرین بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے۔

خلیل زاد اور اس کی بیوی چیرل بینارڈ، جو امریکا اور آسٹریا دونوں کی شہری ہے، کے سات اکاؤنٹس کو منجمد کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ خلیل زاد نے عراق اور متحدہ عرب امارات میں تعمیراتی اور تیل کمپنیوں سے بڑی رقم جمع کی اور اس میں سے ایک اعشاریہ چار ملین ڈالر ویانا میں اپنی بیوی بینارڈ کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کیے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عراق میں بطور سفیر اپنی تعیناتی کے دوران کس طرح خلیل زاد نے مال بنایا تھا۔ اس کے علاوہ لاکھوں بے گناہ عراقیوں کا خون بہانے میں بھی اس کی پالیسیوں کا کلیدی رول تھا۔

اس کے بارے میں مغربی میڈیا نے لکھا کہ وہ عراق میں سفیر سے زیادہ ’’امریکی وائسرائے‘‘ کے طور پر کام کرتا رہا۔ بدنام زمانہ ابو غریب جیل میں اس کے دور میں ہی مسلمان عراقیوں پر انسانیت سوز مظالم کئے گئے ، جس کی کچھ تفصیلات نے ہی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسی طرح افغانستان میں بطور سفیر تعیناتی کے دوران بھی زلمے خلیل زاد ایک متنازعہ ترین شخصیت بنے رہے۔ اس کی تفصیل اگلی کسی رپورٹ میں پیش کی جائے گی۔ فی الحال اصل موضوع خلیل زاد اور اس کے بیوی کے خلاف منی لانڈنگ کی تحقیقات کی طرف آتے ہیں۔

پروفائل میگزین نے اپنی رپورٹ میں دونوں میاں بیوی کی نمائندگی کرنے والے وکلا کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کا حوالہ بھی دیا تھا، جس میں خلیل زاد نے تصدیق کی کہ امریکی محکمہ انصاف نے اس کی بیوی بینارڈ کے نام ویانا میں بینک اکاؤنٹس کے ریکارڈ کے لیے آسٹرین حکام کو ایک درخواست بھیجی تھی۔ ویانا میں ریاستی پراسیکیوٹر کے ترجمان نے قانونی انکوائری کی تصدیق کی۔ لیکن تفصیلات پر بات کرنے سے انکار کردیا تھا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا خلیل زاد سے منی لانڈرنگ کی تحقیقات ہوئی ہیں؟ ویانا کی ریاستی پراسیکیوٹر نینا بسیک کی ترجمان نے کہا تھا ’’میں اس بات کی تصدیق کر سکتی ہوں کہ قانونی کارروائی ہو رہی ہے، لیکن میں مواد پر بات نہیں کر سکتی۔‘‘

پھر یہ ہوا کہ خلیل زاد اور اس کی بیوی کے خلاف منی لانڈرنگ کی تفتیش کا بھانڈا پھوٹنے کے دوسرے تیسرے روز ہی آٹھ ماہ سے منجمد اکاؤنٹس اچانک بحال کر دئیے گئے۔ آج تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آسٹریا میں اکاؤنٹس کی بحالی کے بعد آیا امر یکی محکمہ انصاف نے بھی خلیل زاد کے خلاف منی لانڈرنگ کی تفیش بند کردی تھی یا نہیں ؟ اس پراسرار خاموشی نے کئی سوالات کو جنم دیا جن کے جوابات تاحال نہیں مل سکے ہیں۔

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ امریکی حکام نے خلیل زاد اور اس کی بیوی بینارڈ کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے لئے دوہزار تیرہ کے وسط میں آسٹریا سے قانونی مدد مانگی تھی۔ فروری دوہزار چودہ میں ایک آسٹرین کورٹ نے خلیل زاد کی بیوی کے ویانا میں سات بینک اکاؤنٹس منجمد کردیے۔ ظاہر ہے کہ یہ اکاؤنٹس کسی قسم کے شواہد ملنے پر ہی منجمد کیے گئے ہوں گے۔ تب تک اندرون خانہ ہونے والی اس تفتیش کا کسی کو علم نہیں تھا۔

ستمبر دوہزار چودہ میں اس تحقیقات سے متعلق قانونی دستاویزات اگر اتفاقیہ ایک بلاگر کے ہاتھ نہ لگتیں تو آج بھی کسی کو اس معاملے کا علم نہ ہوتا۔ جب خفیہ تفیش کا معاملہ طشت ازبام ہوگیا اور عالمی میڈیا میں اس خبر کو نمایاں کوریج ملی تو دونوں میاں بیوی وضاحتیں دیتے دیتے تھک گئے۔ تاہم حیرت انگیز طور پر میڈیا میں یہ معاملہ آنے کے دوسرے تیسرے روز ہی خلیل زاد کی اہلیہ کے منجمد اکاؤنٹس، آسٹرین کورٹ نے یہ کہتے ہوئے بحال کردئیے کہ کوئی غیرقانونی چیز نہیں ملی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسی کوئی گڑبڑ نہیں تھی تو پھر ڈیڑھ برس سے امریکی حکام کس بات کی تحقیقات کر رہے تھے اور آسٹرین حکام نے پورے آٹھ ماہ تک خلیل زاد کی بیوی کے سات اکاؤنٹس کیوں منجمد رکھے۔ اور میڈیا میں تحقیقات کا چرچا ہوتے ہی کیوں بحال کردئیے گئے؟ آسٹرین حکام نے آج تک اس کی تفصیل جاری نہیں کی کہ دوران تحقیقات وہ کون سے عوامل یا شواہد تھے جن کی بنیاد پر اچانک تفتیش کاروں پر یہ راز کھلا کہ سب کچھ درست تھا اور دونوں ممالک کے حکام ایویں ڈیڑھ برس تک جھک مارتے رہے۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکی سرکاری حکام نے بھی آج تک خلیل زاد کے خلاف ہونے والی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔ ان عوامل نے اس سارے معاملے کو مشکوک بنا دیا ہے اور اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ تحقیقات کا بھانڈا پھوٹنے پر امریکا نے اپنے خاص ہرکارے کو بدنامی سے بچانے کے لئے سارے کیس پر مٹی ڈال دی۔