احمد خلیل جازم :
میرانی ڈیم بلوچستان کے ضلع کیچ میں وسطی مکران سلسلے کے جنوب میں واقع ہے اور دریائے دشت پر میرانی گورم کے مقام پر بنایا گیا ہے۔ یہ ڈیم کنکریٹ فیس اور پتھروں سے بھرا ہوا ہے۔ میرانی ڈیم کا بنیادی مقصد گرمیوں کے موسم اور سیلاب کے دوران تین دریاؤں کے پانی کو ذخیرہ کرنا تھا۔ تاکہ وادی کیچ میں 33,200 ایکڑ یعنی13,400 ہیکٹر غیر کاشت اراضی لانے کے لیے سال بھر آبپاشی کے لیے پانی دستیاب ہو سکے۔
زیر کاشت میرانی ڈیم کا ثانوی مقصد تربت اور گوادر کے قصبوں کو سال بھر پینے کے صاف پانی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ ماہرین کے مطابق میرانی ڈیم کی اونچائی127 فٹ (39 میٹر)، کریسٹ پر لمبائی 3,350 فٹ (1,020 میٹر) جب کہ اوپر کی چوڑائی35 فٹ (11 میٹر) بتائی جاتی ہے۔ اس کی مجموعی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 302,000 ایکڑ فٹ ہے۔ لائیو اسٹوریج 52,000 ایکڑ فٹ اوراوسط سالانہ ریلیز 114,000 ایکڑ فٹ بتائی جاتی ہے۔
میرانی ڈیم جولائی 2006ء میں مکمل ہوا اور اگست 2006 میں دریائے دشت کو بند کرنا شروع کردیا گیا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو اس ڈیم کے 302,000 ایکڑ فٹ ذخائر کو دریائے کیچ اور دریائے نیہنگ سے پانی ملتا ہے۔ دریائے نہنگ ایرانی مکران سے نکل کر ناصر آباد کے مقام کور ھواران پر آکر دریائے کیچ سے مل جاتا ہے۔ دریائے کیچ 4604 اسکوائر میل پر واقع ہے اور دریائے نہنگ 3360 اسکوئر پر واقع ہے۔ ان دونوں دریاؤں کا ٹوٹل کیچ منٹ ایریا تقریباً 17200 کلو میٹر ہے۔ دونوں دریا بارانی ہیں اور ان میں صرف بارشوں کی صورت میں پانی آتا ہے۔
میرانی ڈیم کے منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ پہلی بار 1956ء میں مکمل ہوئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق میرانی ڈیم کا تصور سب سے پہلے انگریز حکمرانوں نے پیش کیا۔ انگریز دوسری جنگ عظیم میں میرانی گورم پر ایک ڈیم تعمیر کرکے اپنی خوراک کی ضروریات پورا کرنا چاہتے تھے۔ لیکن علاقے کا سروے کرنے کے بعد انگریز حکمرانوں نے اپنے خیال کو موخر کر دیا کیونکہ ان کے مطابق میرانی گورم پر ڈیم تعمیر کرنے سے فائدے کے بجائے نقصانات زیادہ تھے۔ لہٰذا انگریزوں نے میرانی گورم سے لیکر ساحلی شہر جیوانی تک مختلف فاصلوں پر چار ڈیم تعمیر کرنے کا ارادہ کیا۔ پھر 80ء کی دہائی میں سابقہ سویت یونین نے میرانی ڈیم تعمیر کرنے میں دلچسپی ظاہر کی جس پر حکومت پاکستان رضا مندی ظاہر کی۔
بعد ازاں سوویت حکومت نے پاکستان کو یہ مشورہ دیتے ہوئے منصوبہ واپس لے لیا کہ اس ڈیم کے فائدے کی مقابلے نقصانات زیادہ ہیں۔ اس دوران 45 برس گزر گئے اور پھر گوادر پورٹ کی ترقی کے تناظر میں میرانی ڈیم کو پاکستان کی واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) نے 2001 ء میں گوادر اور تربت شہر کو پانی فراہم کرنے کے لیے شروع کیا۔ اس کا سنگ بنیاد اگست 2001ء میں رکھا گیا تھا۔ یہ منصوبہ ڈیسکون انجینئرنگ لمیٹڈ نے ای پی سی کی بنیاد پرجون 2002 ء میں شروع کردیا ۔چنانچہ ڈیم منصوبہ جون 2007 ء میں مکمل ہوگیا۔ اس کی تعمیر کے لیے 1,550 افراد کو ملازمت دی گئی، جن میں سے زیادہ تر کیچ اور گوادر کے اضلاع سے تھے۔
اس منصوبے کے لیے 19,038 ایکڑ (7,704 ہیکٹر) زمین حاصل کی گئی تھی۔ جون 2007ء میں سمندری طوفان یمین کے دوران، نیہنگ اور کیچ ندیوں میں میرانی ڈیم سے واپس آنے والے پانی کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی، جس سے ناصر آباد، قلاتوک اور نودیز کے بالائی علاقوں میں کئی ہزار گھر متاثر ہوئے۔ جس وقت ڈیم کی تعمیر شروع ہورہی تھی اس وقت یونین کونسل نودز ناصر آباد اور بالیچہ کے علاوہ تحصیل دشت کے تمام یونین کونسلز کے عوام نے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کو علاقے کی تباہی سے تعبیر کیا۔ جبکہ حکومت اورڈیسکون کمپنی کی جانب سے لوگوں کی احتجاج کو نظر انداز کردیا گیا اور لوگوں کوحکومت نے یہ تسلیاں دیں کہ ڈیم کا پانی 244 فٹ سے اوپر نہیں جائے گا۔
جبکہ انگریز، روسی اور حکومت پاکستان کے 1956ء کے سروے کے مطابق 80 فٹ کی بلندی سے علاقے کا شمالی حصہ ڈوب جانے کا خطرہ تھا۔ لیکن کمپنی نے 127 فٹ بلند ڈیم تعمیر کرنے کے بعد یہ موقف اختیار کیا کہ بیک فلو پانی 244 فٹ لیول سے آگے نہیں بڑھے گا۔ لیکن 26جون 2007ء میں زبردست بارشوں کے بعد ڈیم میں پانی کی سطح 270 فٹ تک جا پہنچی جس کے باعث بند کے عقبی علاقے میں ہزاروں ایکڑ اراضی زیر آب آگئی جس سے متعدد افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہوئے۔
میرانی ڈیم بلوچستان کے مکران ڈویژن میں تربت سے تقریباً 48 کلومیٹر مغرب میں اور کوئٹہ سے 610 کلومیٹر جنوب مغرب میں اور وسطی مکران رینج ڈیم سائٹ کے شمال میں واقع ہے۔ وادی کیچ قابل کاشت مٹی پر مشتمل ہے، جس پراگر پانی کی مستقل فراہمی کو یقینی بنایا جائے تو زرعی سرگرمیاں کی جا سکتی ہیں۔