کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک)سابق گورنر سندھ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور مریم و نواز شریف کے ترجمان محمد زبیر کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت پر عمران خان کی تنقید اس حد تک جائز ہے کہ آج کل حالات صحیح نہیں ہے، اس کو جھٹلایا بھی نہیں جاسکتا ، کس طرح انکار کریں گے مہنگائی اتنی ہے۔ آج میں آپ کے سامنے بیٹھ کر انکار کردوں تو لوگ کہیں گے اس کو کچھ پتا ہی نہیں ہے کہ عوام کا کتنا برا حال ہے۔ عوام کا کافی برا حال ہے اور ہمیں اس کا ادراک بھی ہے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا کہ نواز شریف کا اس سارے معاملے پر نکتہ نظر صاف ہے، وہ پہلے نہیں چاہتے تھے کہ حکومت چلتی رہے، عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد وہ اسمبلیاں تحلیل کرنے پر زور دیتے رہے۔ جنرل باجوہ کے انٹرویو میں موجود یہ بات بالکل صحیح ہے کہ مئی کے مہینے میں اسمبلیاں تحلیل کرنے جارہے تھے یہ بالکل طے ہوگیا تھا، لیکن عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کردیا، عمران خان کو منع کیا تھا کہ لانگ مارچ کا اعلان نہ کریں، اب اگر لانگ مارچ کے اعلان کے بعد اسمبلی تحلیل کرتے تو تاثر جاتا کہ دباؤ میں آگئے، لانگ مارچ سے اتنی جلدی ڈر گئے۔
مریم نواز کا نئی سیاسی اسٹریٹیجی کیا ہوگی؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان مریم نواز نے کہا کہ اگلا ہفتہ بہت اہم ہے، کیونکہ پی ٹی آئی سپریم کورٹ میں گئی ہے، سپریم کورٹ اگر الیکشن کمیشن کو ہدایت کرتی ہے کہ 30 اپریل کو ہی الیکشن کرائیں، یا دوسرا فیصلہ کرتی ہے کہ الیکشن کمیشن حق بجانب ہے الیکشن ملتوی کرنے میں، تو اس سے سیاست ابھر کر سامنے آئے گی، اس وقت تک ہمیں انتظار کرنا چاہئیے۔ جیسا فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی، مریم نواز اس کے بعد ہی سیاسی ایجنڈا بتائیں گی۔
ملکی معیشت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سنہ 60ء کے بعد سے یہ 23واں آئی ایم ایف پروگرام ہے جو کہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے، یعنی کہ ہم ہر تین سال کے بعد آئی ایم کے پاس جاتے ہیں، انڈیا ایک دفعہ گیا ہے، بنگلہ دیش دو تین مرتبہ گیا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جب آپ اتنی مرتبہ جاتے ہیں تو آئی ایم ایف بھی اب تنگ آچکا ہے۔ آئی ایم کہتا ہے بہت سے فیصلے آپ نے دیر سے لئے آپ کو پہلے یہ فیصلے کرنے تھے۔ مفتاح اسماعیل جب تھے اس وقت ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں واپس چلے گئے تھے اور ستمبر کے پہلے ہفتے میں ہمیں لاسٹ ٹرانس مل گیا تھا، پھر جب ڈار صاحب آئے تو سمجھ رہے تھے کہ وہ اپنے تجربے کو اچھی طرح استعمال کرسکتے ہیں، اس طرح سے کہ پہلے دوست ممالک کے پاس جائیں ، اگر وہاں سے پیسہ مل جاتا ہے تو پھر آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت اتنی سخت نہیں ہوگی۔
محمد زبیر نے کہا کہ اس دوران ہمیں یہ بھی محسوس ہوا کہ دوست ممالک کے مطالبات بھی بڑھ گئے ہیں، ان کا صبر بھی ختم ہو گیا ہے، وہ بھی کہتے ہیں کہ آپ اپنی معیشت کو ٹھیک تو کرتے نہیں ہیں، ہر تھوڑے عرصے بعد وہی کہانی آخر سناتے ہیں پچھلا خراب کرکے گیا تھا۔