اسلام آباد: سپریم کورٹ میں الیکشن سے متعلق تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 90 دن اب بھی گزر گئے ہیں،ہمارے ملک میں آئین کی کوئی پرواہ نہیں کرتا،الیکشن تو ہر صورت ہونے ہیں، سوال یہ ہے اب 90 دن سے زیادہ تاریخ کون بڑھائے گا؟سوال یہ بھی ہے کیاایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہیے۔
سپریم کورٹ میں الیکشن سے متعلق تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی ،نئے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان ،سینیٹر فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کیا الیکشن شیڈول 90 دن سے کم کیا جاسکتا ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ الیکشن کمیشن کے پاس 90 دن کے اندر شیڈول ایڈجسٹ کرنے کا اختیارہے، الیکشن کمیشن بظاہر90 دن سے تاخیر نہیں کر سکتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 90 دن اب بھی گزر گئے ہیں،ہمارے ملک میں آئین کی کوئی پرواہ نہیں کرتا،الیکشن تو ہر صورت ہونے ہیں، سوال یہ ہے اب 90 دن سے زیادہ تاریخ کون بڑھائے گا؟سوال یہ بھی ہے کیاایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہیے۔
وکیل علی ظفر نے کہاکہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ منتخب نمائندے ہوتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہ وزیراعظم کی اپنی جماعت عدم اعتماد لانا چاہے تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے، وکیل علی ظفر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد آ جائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کیا پارلیمنٹ کو معاملے کو نہیں دیکھنا چاہیے، وکیل علی ظفر نے کہاکہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے اختیار پر پارلیمنٹ بحث کر سکتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ عدالتی فیصلہ پر عمل ہو چکا ہے، صدر مملکت کی تاریخ پر الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا، سوال یہ ہے کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے صدر کی تاریخ کو تبدیل کردے، کیا الیکشن کمیشن 90 دن سے زیادہ کی تاخیر کر سکتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن ایسا کر سکتا ہے، بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے پنجاب کی حد تک عدالتی فیصلہ پرعمل کیا،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس تاریخ کا تعین کرنے کا اختیار ہے، کیا الیکشن کمیشن صدر کی تاریخ کو تبدیل کر سکتا ہے۔