اسلام آباد : (امت نیوز) سپریم کورٹ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف پی ٹی آئی و دیگر کی درخواستوں پر سماعت جاری ہے ۔ سپریم کورٹ میں آج تیسرے دن پنجاب اور کے پی میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل اس لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔
دورانِ سماعت سپریم کورٹ میں حکومتی اتحاد کے وکلاء روسٹرم پر موجود تھے، اس موقع پر وکیل فاروق نائیک نے یکم مارچ کے فیصلے کی وضاحت کے لیے فل کورٹ بنانے کی استدعا کر دی۔
انہوں نے کہا کہ انصاف کے تقاضوں کے لیے ضروری ہے کہ یہ فیصلہ ہو کہ فیصلہ 4/3 تھا یا 3/2 کا، پورے ملک کی قسمت کا دار و مدار اس مدعے پر ہے، قوم ایک مخمصے میں پھنسی ہوئی ہے، سپریم کورٹ کو عوام کی عزت، وقار اور اعتماد کو برقرار رکھنا ہے۔
چیف جسٹس نے فاروق نائیک کو ہدایت کی کہ اپنی درخواست تحریری طور پر جمع کرائیں، عدالت کے ماحول کو خراب نہ کیا جائے۔
فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے استدعا کی کہ کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے، یہ کیس سننے سے پہلے اس بات کا فیصلہ ہونا چاہیے کہ فیصلہ 4/3 کا ہے، پہلے دائرہ اختیار کے معاملے پر فیصلہ کریں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس مدعے پر فیصلہ تب کریں گے جب درخواست سامنے ہو گی، پرسکون رہیں، پُرجوش نہ ہوں۔
اس موقع پر وکیل عرفان قادر الیکشن کمیشن کی جانب سے پیش ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پہلے ہم الیکشن کمیشن کو سنیں گے، آپ تمام لوگ پی ڈی ایم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں، اتحادی حکومت کا حصہ ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کہاں ہیں؟ الیکشن کمیشن نے دستاویزات داخل کرنا تھیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ میری آج پہلی پیشی ہے، ایک پروسیجر ہے، عدالت کو جلدی کیا ہے؟
چیف جسٹس پاکستان نے ہدایت کی کہ اگر دستاویزات نہیں تو آپ اپنے کیس پر دلائل دیں، آپ دوسرے وکیل کو سپر سیڈ کر رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ عدالت کی مرضی ہے، جو آپ کرنا چاہیں، عدالت جس وکیل کو لینا چاہتی ہے لے لے، میں روسٹرم چھوڑتا ہوں، جاننا چاہتا ہوں کہ عدالت مجھے بطور وکیل الیکشن کمیشن سننا چاہتی ہے یا نہیں؟ بینچ کہہ دے کہ میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی نہ کروں تو چلا جاؤں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کل حامد علی شاہ اور سجیل سواتی آئے تھے۔
عرفان قادر ’ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں‘ کہہ کر کمرۂ عدالت سے چلے گئے، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی روسٹرم پر آ گئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے استفسار کیا کہ پہلے الیکشن کمیشن یہ بتائے کہ انہوں نے شیڈول جاری کیسے کیا؟ الیکشن کمیشن کے پاس جب آرڈر آف دی کورٹ آیا ہی نہیں تو اس نے عمل کیسے کیا؟ سپریم کورٹ کا حکم وہ ہوتا ہے جو آرڈر آف دی کورٹ ہو، وہ جاری نہیں ہوا، کیا آپ نے عدالت کا مختصر حکم نامہ دیکھا تھا؟
الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ ممکن ہے کہ فیصلہ سمجھنے میں ہم سے غلطی ہوئی ہو۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ فیصلہ 4/3 کا ہے؟ یکم مارچ کے فیصلے میں کہیں درج نہیں کہ فیصلہ 4/3 کا ہے، اختلافِ رائے جج کا حق ہے، ججز کی اقلیت کسی قانون کے تحت خود کو اکثریت میں ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی، کھلی عدالت میں 5 ججز نے مقدمہ سنا اور فیصلہ دے کر دستخط بھی کیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ گزشتہ روز کے ریمارکس فیصلے کے انتظامی حصے کی حد تک تھے، مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ اختلافی نوٹ لکھے گئے ہیں، اختلافی نوٹ میں واضح لکھا ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللّٰہ کے فیصلے سے متفق ہیں، کیا جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللّٰہ کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہو گئے؟
دورانِ سماعت عدالتِ عظمیٰ میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے کل کے ریمارکس پر وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ کل میرے ریمارکس پر بہت زیادہ کنفیوژن ہوئی ہے، میں اپنے ریمارکس کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔
ان کا کہنا ہے کہ میں اپنے تفصیلی آرڈر پر قائم ہوں، فیصلے کا ایک حصہ انتظامی اختیارات کے رولز سے متعلق ہے، چیف جسٹس کو کہیں گے کہ رولز دیکھنے کے لیے ججزکی کمیٹی بنائی جائے، ججز کی کمیٹی انتظامی اختیارات کے رولز کو دیکھے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ فیصلے کے دوسرے حصے میں ہم 4 ججز نے از خود نوٹس اور درخواستیں مسترد کی ہیں، 4 ججز کا فیصلہ ہی آرڈر آف دی کورٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ آرڈر آف دی کورٹ چیف جسٹس پاکستان نے جاری ہی نہیں کیا، جب فیصلہ ہی نہیں تھا تو صدر نے الیکشن کی تاریخ کیسے دی؟ الیکشن کمیشن نے کیسے الیکشن شیڈول جاری کیا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے یہ بھی کہا کہ آج عدالت کے ریکارڈ کی فائل منگوا لیں، اس میں آرڈر آف دی کورٹ نہیں ہے، آرڈر آف دی کورٹ پر تمام جج سائن کرتے ہیں، گزشتہ روز کے ریمارکس فیصلے کے انتظامی حصے کی حد تک تھے۔