سید حسن شاہ :
ایف آئی اے کی جانب سے قومی خزانے کو 54 ارب روپے کا نقصان پہنچانے والے حیسکول پیٹرولیم لمیٹڈ اور نیشنل بینک کے6 اعلیٰ افسران کو بچانے کی کوشش ناکام ہوگئی۔
ایف آئی اے نے بینکنگ عدالت میں سپلیمنٹری فائنل چالان داخل کرتے ہوئے مذکورہ افسران کو بے قصور قرار دیا تھا۔ جبکہ بیرون ملک مقیم برطانوی شہری و چیئرمین حیسکول سر جیمز کارٹر ایلن ڈوکان، نان ایگزیکٹو و ڈائریکٹر حیسکول عبدالعزیز خالد، نان ایگزیکٹو ڈائریکٹر فرید ارشد مسعود، سی ای او حیسکول عقیل احمد خان، سابق صدر نیشنل بینک سعید خان اور ایس ای پی وی نیشنل بینک عثمان شاہد کو بنا شامل تفتیش کئے مقدمہ سے نام خارج کرنے کی استدعا کی گئی۔ تاہم عدالت نے ایف آئی اے کے اس چالان کو مسترد کر دیا اور قرار دیا ہے کہ تفتیشی ایجنسی کی جانب سے اس طرح کے متعصبانہ اور بدنیتی پر مبنی اقدامات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی معافی دی جا سکتی ہے۔ پوری کہانی واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ آخری چالان صرف ان ملزمان کو سہولت فراہم کرنے اور بری کرنے کے لیے دائر کیا گیا ہے جو مفرور اور بیرون ملک بیٹھے ہیں۔
واضح رہے کہ اس اسکینڈل کی تحقیقات میں جب ایف آئی اے نے ان کے لین دین کی چھان بین کی تھی تو انکشاف ہوا کہ حیسکول پٹرولیم کی انتظامیہ نے نیشنل بینک اور دیگر افسران کی ملی بھگت سے اربوں روپے کے لیٹر آف کریڈٹ کیش کروائے۔ جس کے عوض یا تو جزوی تیل حاصل کیا گیا یا پھر آئل کی سپلائی صرف کاغذوں میں کی گئی۔ مذکورہ کیس اسپیشل بینکنگ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
عدالتی حکم نامے کے مطابق 6 مارچ 2023ء کو مقدمہ کا سپلیمنٹری فائنل چالان جمع کرایا گیا۔ جس میں 13 ملزمان سابق چیئرمین نیشنل بینک طارق جمالی، سابق سی ایف او حیسکول محمد علی ہارون، سلیم بٹ، طاہر علی، خرم شہزاد، نوابزادہ اکبر حسن خان، ریما اطہر، وجاہت اے بقائی، محمد سلیم سلیمی، محمد اسمار عتیق، سید جمال باقر، محمد علی انصاری اور سید حسن ارتضیٰ کو گرفتار ظاہر کیا گیا۔ جبکہ 2 ملزمان ممتاز حسن اور سید احمد اقبال اشرف کو ضمانت پر رہا قرار دیا گیا۔
اسی طرح 6 ملزمان چیئرمین حیسکول سر جیمز کارٹر ایلن ڈوکان، نان ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عبدالعزیز خالد، نان ایگزیکٹو و ڈائریکٹر فرید ارشد مسعود، سی ای او حیسکول عقیل احمد خان سابق صدر نیشنل بینک سعید احمد اور سابق گروپ چیف عثمان شاہد کو کالم نمبر دو میں رکھا۔ جبکہ ان ملزمان کو ٹرائل میں شامل نہ کرنے کی سفارش کی گئی۔ چالان میں ایک ملزم محمد حامد خان کو مفرور قرار دیا گیا۔ حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ سپلمنٹری فائنل چالان کا فیصلہ کرنے کیلئے کیس کی مکمل کارروائی کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ مقدمہ درج ہونے کے بعد 7 فروری 2022ء کو تفتیشی افسر کی جانب سے ضمنی چالان جمع کرایا گیا اور 32 ملزمان کو چالان کیا گیا۔ چالان میں ایک ملزم حیسکول کے ملازم ممتاز حسن خان کو گرفتار ظاہر کیا گیا۔ جبکہ ڈائریکٹر حیسکول نجم الثاقب حمید، سابق صدر نیشنل بینک سید احمد اقبال اشرف اور سابق ای وی پی نیشنل بینک نوابزادہ اکبر حسن خان سمیت 22 ملزمان کو ضمانت پر رہا بتایا گیا۔ اسی طرح 9 ملزمان کو مفرور قرار دیا گیا جن میں برطانوی شہری و چیئرمین حیسکول سر جیمز کارٹر ایلن ڈوکان، سی ای او حیسکول عقیل احمد خان اور سابق صدر نیشنل بینک سعید احمد سمیت دیگر شامل ہیں۔
ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ 19 جولائی 2022ء کو تفتیشی افسر کی جانب سے حتمی چالان نمبر 38/2022 جمع کرایا گیا اور اس میں بھی 32 ملزمان کو نامزد کیا گیا۔ جن میں سے 18 ملزمان کو ضمانت پر رہا ظاہر کیا گیا۔ 10 ملزمان کے نام چالان کے کالم نمبر دو میں لکھے گئے اور انہیں ٹرائل میں شامل نہ کرنے کی سفارش کی گئی۔ جبکہ 4 ملزمان کو مفرور قرار دیا گیا۔ حتمی چالان مقدمہ کی مکمل تفتیش کے بعد جمع کرایا گیا اور اس میں نامزد ملزمان کے کردار کے حوالے سے بھی بتایا گیا۔
مذکورہ حتمی چالان کو 19 جولائی 2022ء کو منظور کرلیا گیا جس کے بعد ضمانت پر رہا 18 ملزمان کے خلاف ٹرائل شروع کیا گیا۔ جبکہ 4 مفرور ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے۔ بعد ازاں مفرور ملزمان کی گرفتاری عمل میں نہ لائی جانے کے سبب انہیں اشتہاری قرار دے دیا گیا۔ 20 فروری 2023 کو ملزمان کو مقدمہ کی نقول فراہم کی گئیں۔ اس دن ملزمان کی عبوری ضمانتوں کی درخواستیں بھی سنی گئی اور ان درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے ضمانتیں مسترد کردی گئیں۔ ضمانتیں مسترد ہونے پر 16 ملزمان کو جیل بھیج دیا گیا۔ جبکہ ایک ملزم سید احمد اقبال اشرف فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ اسی طرح ایک ملزم ممتاز حسن خان نے سندھ ہائی کورٹ سے عبوری ضمانت حاصل کرلی۔ گرفتار 16 ملزمان نے عدالت میں دوبارہ ضمانت کی درخواستیں جمع کرائی۔ جنہیں 3 مارچ 2023 کو مسترد کردیا گیا۔
جے آئی ٹی کے رکن و تفتیشی افسر نے 6 مارچ 2023ء کو سپلیمنٹری فائنل چالان جمع کرایا۔ جس میں کہا گیا کہ ایف آئی اے کے زونل بورڈ نے تفتیشی ٹیم کی جانب سے دیئے گئے نتائج کی اسکروٹنی کی اور سپلیمنٹری چارج شیٹ اس لئے جمع کرائی گئی، تاکہ مقدمہ سے ملزمان برطانوی شہری و چیئرمین حیسکول سر جیمز کارٹر ایلن ڈوکان، نان ایگزیکٹو و ڈائریکٹر حیسکول عبدالعزیز خالد، نان ایگزیکٹو ڈائریکٹر فرید ارشد مسعود، سی ای او حیسکول عقیل احمد خان، سابق صدر نیشنل بینک سعید خان اور ایس ای پی وی نیشنل بینک عثمان شاہد کے نام نکالے جائیں۔ مذکورہ چالان کو ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی زون کی سربراہی میں زونل بورڈ کی منظوری کے بعد عدالت میں جمع کرایا گیا تھا۔ جس پر عدالت کی جانب سے ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی زون اور جے آئی ٹی کے ممبر کو نوٹس کے ذریعے ذاتی حیثیت میں طلب کیا گیا۔
عدالتی طلبی پر ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی زون اور ممبر جے آئی ٹی پراسیکیوٹر کے ہمراہ پیش ہوئے۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے مؤقف اختیار کیا کہ تفصیلی تحقیقات کے بعد سپلیمنٹری فائنل چالان جمع کرایا گیا اور ایف آئی اے اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ کالم نمبر دو میں لکھے گئے ملزمان کے خلاف ٹھوس ثبوت و شواہد موجود نہیں۔ جبکہ باقی ملزمان کے خلاف دستیاب مجرمانہ مواد کی بنیاد پر انہیں اس کیس میں ٹرائل کا سامنا کرنے کیلئے چالان کیا گیا ہے۔ لہذا استدعا ہے کہ چالان کو منظور کیا جائے اور چالان کئے گئے ملزمان کے خلاف ٹرائل شروع کیا جائے۔
عدالت نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر اور افسران کے مؤقف اور ریکارڈ کا بغور جائزہ لیا اور اپنی آبزرویشن میں کہا کہ یہ قانون کا طے شدہ اصول ہے کہ عدالتیں تفتیشی افسران کی من مانی رائے کی پابند نہیں۔ عدالتوں کو حقائق اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ مذکورہ چالان پر انکوائری ہونی چاہیے اور اس پر حکم جاری کرنا ہے۔
سپلیمنٹری فائنل چالان سے ظاہر ہوتا ہے کہ میسرز وائٹل دبئی لمیٹڈ اور میسرز وائٹل یو کے کی جانب سے وزارت داخلہ کے ذریعے ایف آئی اے کو درخواستیں بھجوائی گئیں اور انہوں نے مقدمہ کی دوبارہ سے تفتیش کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ بورڈ آف حیسکول کے نومینی ڈائریکٹرز جیمز کارٹر ایلن ، عبدالعزیز خالد ، فرید ارشد مسعود اور عقیل احمد کی غیر موجودگی میں مقدمہ درج ہوا اور انہیں اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ مذکورہ چاروں افراد بیرون ملک میں تھے اور تفتیش کے مراحل کے دوران تفتیشی افسر کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ 27 فروری 2023ء کو ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد نے مقدمہ کی جے آئی ٹی کے ذریعے دوبارہ تفتیش کرانے سے متعلق لیٹر جاری کیا۔ جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی کی جانب سے جے آئی ٹی ٹیم تشکیل دی گئی۔
عدالتی حکم نامے کے مطابق چالان میں یہ بھی بتایا گیا کہ جے آئی ٹی کی جانب سے دوبارہ تفتیش کے دوران یہ بات ریکارڈ پر آئی کہ 3 ملزمان جیمز کارٹر ایلن، عبدالعزیز خالد اورفرید ارشد مسعود حیسکول پیٹرولیم لمیٹڈ کے نان ایگزیکٹو ڈائریکٹرز ہیں جن کے پاس اپنے متعلقہ پورٹ فولیو پر کوئی قابل ذکر اختیار نہیں تھا اور انہیں کمپنیز ایکٹ 2017 کی دفعہ 181 کے تحت نان ایگزیکٹو ڈائریکٹرز ہونے کی وجہ سے تحفظ حاصل ہے۔ ملزم سی ایف او حیسکول عقیل احمد خان جو سال 2019 میں اس وقت حیسکول کے پروکیورمنٹ ایگزیکٹو کے سربراہ نہیں تھے۔ اس لیے ان کا جعلی دستاویزات بنانے میں کوئی کردار نہیں۔ ملزم سابق صدر نیشنل بینک سعید احمد کے خلاف بھی کوئی دستاویزی، زبانی یا دیگر شواہد نہیں ملے۔ جبکہ ملزم گروپ چیف نیشنل بینک عثمان شاہد کریڈٹ پروپوزل پر دستخط کنندہ نہیں اور وہ حیسکول کو دیئے گئے قرضوں کی شرائط و ضوابط میں تبدیلی کے ذمہ دار بھی نہیں قرار پائے۔
عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ ایف آئی اے افسران کے مؤقف نے ایف آئی اے کی تفتیش پر سنگین سوالات اٹھادیئے ہیں اور ایسا لگتا ہے تحقیقات ایسے ملزمان کی خواہشات پر کی جارہی ہیں جو نہ صرف مفرور ہیں۔ بلکہ ایف آئی آر اور عبوری چارج شیٹ میں بھی نامزد ہیں۔ 7 فروری 2022ء سے 19 جولائی 2022ء کے دوران کی گئی تفتیش اور چالانوں میں ہر ایک ملزم کا کردار اور اس کی پوزیشن واضح طور پر درج ہے۔ 7 فروری 2022ء سے 6 مارچ 2023ء تک جو آخری چالان جمع کرایا گیا۔ اس دوران ایک سال تک ایف آئی اے حکام مذکورہ 6 ملزمان کے بارے میں خاموش رہے۔ اب ان 6 ملزمان کو ٹرائل کیلئے نہیں بھیجا جارہا۔ جبکہ 19 جولائی 2022ء کو جمع کرائے گئے چالان میں ایف آئی اے نے ایسا کچھ مؤقف اختیار نہیں کیا بلکہ انہیں نیشنل بینک اور حیسکول میں کلیدی عہدوں پر تعینات ملزمان کے طور پر ظاہر کرتے ہوئے انہیں جرم کا ذمے دار ٹھہرایا گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل اور کیس کی دوبارہ تفتیش کے اقدامات اس وقت اٹھائے گئے جب 20 فروری 2023ء کو ملزمان کی ضمانت قبل از گرفتاری مسترد کردی گئیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ 27 فروری 2023ء کو ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد نے مقدمہ کی دوبارہ تحقیقات کیلیے خط لکھا۔ جبکہ اسی روز ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی زون نے جے آئی ٹی ٹیم بھی تشکیل دے دی۔ جے آئی ٹی نے کیس کی دوبارہ تفتیش کرتے ہوئے 24 فروری 2023 کو ایک خط کے ذریعے سوالنامہ تیار کرکے حیسکول کو بھیج دیا۔ یعنی جے آئی ٹی تشکیل دینے سے 3 روز قبل ہی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا اور اس خط کا حیسکول نے 25 فروری 2023 کو جواب دیا۔ حالانکہ جے آئی ٹی تو 27 فروری 2023 کو تشکیل دی گئی تھی۔ تفتیشی ایجنسی کی جانب سے اس طرح کے متعصبانہ اور بدنیتی پر مبنی اقدامات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی معافی دی جاسکتی ہے۔ پوری کہانی واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ آخری چالان صرف ان ملزمان کو سہولت فراہم کرنے اور بری کرنے کے لیے دائر کی گئی جو مفرور اور بیرون ملک بیٹھے ہیں۔ جن کے ذریعے قومی خزانے کو 54 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ عدالت پہلے ہی 19 جولائی 2022ء کے چالان کو منظور کرچکی ہے۔ جس میں بے قصور قرار دیئے گئے ملزمان کے خلاف جرم میں ملوث ہونے کے کافی شواہد موجود ہیں۔ اب دوبارہ چالان جمع کرنے کی کوئی معقول اور ٹھوس وجہ نہیں۔ ایف آئی اے اور جے آئی ٹی اس معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ عدالت کسی کو سہولت فراہم کرنے کیلیے نہیں بلکہ انصاف فراہم کرنے کیلئے کام کرتی ہیں۔ مذکورہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے واضح ہے کہ ملزمان کے خلاف گزشتہ چالان میں شواہد موجود ہیں۔ جس کی بنا پر ان کے خلاف ٹرائل شروع کیا جائے گا۔ ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرائی گئی سپلیمنٹری فائنل چارج شیٹ کو مسترد کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ضمانتیں مسترد ہونے پر گرفتار ہونے والے 16 ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ سے ضمانتیں حاصل کرلی ہیں۔