پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ درست قرار پایا تو نیب قوانین کے خلاف فیصلہ کالعدم ہوجائے گا، فائل فوٹو 
میڈیا  کی تنقید کو ویلکم کرتے ہیں، فائل فوٹو

کونساجادو ہے جو8 اکتوبر کو سب ٹھیک ہو جائے گا، چیف جسٹس

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف درخواست پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے کچے کے آپریشن کی وجہ سے پورے پنجاب میں الیکشن ملتوی کردیا،کے پی کے میں الیکشن کی تاریخ دیکر واپس لی گئی ،8 اکتوبر کی تاریخ پہلے سے مقرر کی گئی،8 اکتوبر کو کونساجادو ہو جائے گا جو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

سپریم کورٹ میں انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ عدالت کا مقصد سیاسی نظام کو چلنے رہنے دینا ہے، سیاسی جماعت بھی سیاسی نظام کو آگئے بڑھانے کی مخالفت نہیں کرتی، ایک مسئلہ سیاسی درجہ حرارت کا ہے، علی ظفر ، اٹارنی جنرل کو سیاسی درجہ حرارت کم کرنے پر ہدایت لیکر آگاہ کرنے کا کہا تھا، سیاسی درجہ حرارت کم ہونے تک انتخابات پرامن نہیں ہو سکتے، کسی فریق نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی،وکیل علی ظفر نے کہاکہ عدالت کو مکمل یقین دہانی کرانے کیلیے تیار ہیں۔

چیف جسٹس نے علی ظفر سے استفسار کیا یقین دہانی کس کی طرف سے ہے؟وکیل علی ظفر نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے تحریری یقین دہانی کرائیں گے، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ حکومت کی پارٹی کی باری آئے گی تو ان سے بھی اس حوالے سے بات کریں گے، جہاں مسئلہ زیادہ ہے اس ضلع میں انتخابات موخر ہو سکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے کچے کے آپریشن کی وجہ سے پورے پنجاب میں الیکشن ملتوی کردیا،کے پی کے میں الیکشن کی تاریخ دیکر واپس لی گئی ،8 اکتوبر کی تاریخ پہلے سے مقرر کی گئی،8 اکتوبر کو کونساجادو ہو جائے گا جو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ الیکشن کمیشن پروگرام تبدیل کرسکتا ہے، تاریخ نہیں، گورنر، صدر کی دی گئی تاریخ الیکشن کمیشن کیسے تبدیل کر سکتا ہے، آئین میں واضح ہے پولنگ کی تاریخ کون دے گا ، کیا الیکشن ایکٹ کا سیکشن58 آئین سے بالاتر ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی سوالات پر ہدایات لی ہیں،الیکشن کمیشن کی 8 اکتوبر کی تاریخ عارضی نہیں ،ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق تھریٹس لیول بڑھ گیاہے،کچھ علاقوں میں انتخابات کرائیں تو ایجنسیوں کے مطابق وہیں دہشتگردی کا فوکس ہو گا، الیکشن کی ذمہ داری ہے دیانتداری سے انتخابات کرائے، پرامن اورشفاف انتخابات کا انعقاد بھی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، ایجنسیوں کی طرف سے کہا گیاہے اس دوران انتظامات مکمل کر لئے جائیں گے۔

سجیل سواتی نے کہاکہ صاف شفاف انتخابات یقینی بنانے کیلئے الیکشن کمیشن کوئی بھی حکم جاری کر سکتا ہے، ورکرز پارٹی فیصلہ کے مطابق صاف شفاف انتخابات کیلئے وسیع اختیارات ہیں،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آپ کہہ رہے ہیں اداروں سے معاونت نہیں مل رہی، الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری سے کیسے بھاگ سکتا ہے، صاف شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، انتخابی شیڈول پر عمل شروع ہو گیا تھا، اگر کوئی مشکل تھی تو عدالت آجاتے الیکشن کمیشن وضاحت کرے الیکشنز6 ماہ آگے کیوں کر دیئے؟کیا ایسے الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پورے کرے گا، کیا انتخابات میں 6 ماہ کی تاخیر آئینی مدت کی خلاف ورزی نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ انتخابات کرانے کااختیار کس دن سے شروع ہوتا ہے، انتخاباتی تاریخ مقرر ہونے سے اختیار شروع ہوتا ہے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ تاریخ مقرر ہو جائے تو اسے بڑھانے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے ، صرف پولنگ کا دن نہیں پورا الیکشن پروگرام موخر کیا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ الیکشن کمیشن پروگرام تبدیل کرسکتا ہے، تاریخ نہیں، سجیل سواتی نے کہاکہ الیکشن کمیشن ٹھوس وجوہات پر الیکشن پروگرام واپس لے سکتا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ گورنر، صدر کی دی گئی تاریخ الیکشن کمیشن کیسے تبدیل کر سکتا ہے، آئین میں واضح ہے پولنگ کی تاریخ کون دے گا ، کیا الیکشن ایکٹ کا سیکشن58 آئین سے بالاتر ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے صرف اپنے حکم کادفاع کرنا ہے، عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں، یہ درخواست گزار نے ثابت کرنا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع کرکے قائل کرنا چاہئے تھا،آپ آج ہی عدالت کو قائل کر لیں،الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع کرکے قائل کرنا چاہیے تھا، 8 اکتوبر کی جگہ 8 ستمبر یا8 اگست کیوں نہیں ہو سکتی،وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ 6 ماہ کا وقت مکمل ہونے کے بعد8اکتوبر کو پہلا توار بنتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کیا پولنگ کی تاریخ الیکشن پروگرام کا حصہ ہوتی ہے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ پولنگ کی تاریخ الیکشن شیڈول کا حصہ ہوتی ہے، جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ صدر کو تجویز کردہ تاریخ کمیشن کی تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتی، صدر کو فروری میں ہونے والے اجلاسوں سے کیوں آگاہ نہیں کیاگیا،جب معلوم تھا30 اپریل کو الیکشن نہیں ہو سکتے تو تاریخ تجویز ہی کیوں کی گئی۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہامعاملہ کی حساسیت کا اندازہ مارچ میں ہوا،جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ عدالت نے صدر کو آگاہ کرنے سے نہیں روکا،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حالات کا جائزہ لینا الیکشن کمیشن کاکام ہے، صدر کا نہیں، جسٹس امین الدین نے کہاکہ الیکشن شیڈول پر عمل کرنے کا کیا فائدہ ہوا جب آج پھر عدالت میں کھڑے ہیں ، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ صدر تاریخ کااعلان کردیں تو کیا کمیشن اختیار استعمال کرکے انتخابات سے انکار کر سکتا ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے پراناشیڈول ختم کرکے نیا شیڈول جاری نہیں کیا، الیکشن شیڈول کی بجائے الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر کا جھنڈا لگادیاہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیکشن 58 الیکشن کمیشن کی تاریخ بڑھانے کی اجازت نہیں دیتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ چاہتے ہیں عدالت8 اکتوبر کی تاریخ پر مہر لگائے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے صرف اپنے حکم کادفاع کرنا ہے، عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں، یہ درخواست گزار نے ثابت کرنا ہے۔

سجیل سواتی نے کہاکہ انتخابات کی طرح زندگی کا تحفظ بھی عوام کا بنیادی حق ہے، عدالت صرف کمیشن کا حکم غیر آئینی، بدنیتی پر مبنی ہونے پر ہی کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کیا بدنیتی کا نقطہ درخواست گزار نے اٹھایا ہے، سجیل سواتی نے کہاکہ درخواست پر بدنیتی کا نقطہ نہیں اٹھایا گیا، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ الیکشن کمیشن کا حکم نامہ بنیادی طور پر مدد کی پکار ہے۔

سجیل سواتی نے کہاکہ آزادانہ شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ الیکشن کمیشن کا حکم نامہ بنیادی پر مدد کی پکار ہے، تمام اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں تو کیا کمیشن انتخابات سے معذوری ظاہر کر سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ الیکشن کمیشن حکومت پر انحصار کرتا ہے، حکومت نے بتانا ہے وہ مدد کرنے کی پوزیشن میں ہے یا نہیں،الیکشن کمیشن حکومت کی بریفنگ پر مطمئن ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ سازگار ماحول کا کیا مطلب ہے کوئی کسی پر انگلی نہ اٹھائے، چھوٹی موٹی لڑائی جھگڑے تو ہر ملک میں ہوتے ہیں،اصل معاملہ یہ ہے اسلحہ کا استعمال نہ ہو،معمولی جھگڑا بھی نہیں چاہتے تو ایسا نظام بنائیں لوگ گھر سے ہی ووٹ کاسٹ کریں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ پیسے، سکیورٹی مل جائے تو 30 اپریل کو انتخابات ہو سکتے ہیں، وکیل سجیل سواتی نے کہاحکومت کی معاونت مل جائے تو 30 اپریل کو انتخابات کروا سکتے ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ انتظامی ادارے تعاون نہیں کر رہے تھے تو عدالت کو بتاتے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کمیشن حالات سے 10 سال مطمئن نہ ہو تو کیا عدالت الیکشن کرانے کا کہہ سکتی ہے۔

سجیل سواتی نے کہاکہ الیکشن کمیشن حقیقت پسندانہ فیصلہ کرے گا، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ الیکشن کمیشن راستہ نہیں ڈھونڈ سکتا تو ہم ڈھونڈیں گے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر الیکشن تاخیر سے ہوئے تھے، 2008 میں حالات ایسے تھے کسی نے انتخابات ملتوی کرنے پر اعتراض نہیں کیا، اللہ کرے 2008 والا واقعہ دوبارہ نہ ہو،بنیادی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین کی تشریح ہو گئی ہے، آرٹیکل 218/3 آرٹیکل 224 سے بالاتر کیسے ہو سکتا ہے،سجیل سواتی نے کہاکہ آرٹیکل 218/3 شفاف منصفانہ انتخابات کی بات کرتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ شفاف انتخابات نہیں ہوں گے تو کیا ہو گا؟سجیل سواتی نے کہاکہ الیکشن شفاف نہ ہوں تو جمہوریت نہیں چلے گی، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ سازگار ماحول کا کیا مطلب ہے کوئی کسی پر انگلی نہ اٹھائے، چھوٹی موٹی لڑائی جھگڑے تو ہر ملک میں ہوتے ہیں،اصل معاملہ یہ ہے اسلحہ کا استعمال نہ ہو،معمولی جھگڑا بھی نہیں چاہتے تو ایسا نظام بنائیں لوگ گھر سے ہی ووٹ کاسٹ کریں،سمندر پاکستان پاکستانی ووٹ کا حق مانگتے ہیں سپریم کورٹ کا حکم بھی موجود ہے، الیکشن کمیشن نے ابھی تک سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹنگ کیلئے کچھ نہیں کیا، حکومت سے پوچھتے ہیں 6 ماہ کا عرصہ کم ہو سکتا ہے یا نہیں۔الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کے دلائل مکمل ہو گئے ۔