نوازشریف نے آرمی چیف بنایا،میں کیسے نا اہل کراسکتا تھا،جنرل(ر)قمرباجوہ

اسلام آباد (نیٹ نیوز) سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر باجوہ کے ایک صحافی شاہد میتلا کو انٹرویو کا اگلا حصہ بھی منظر عام پر آ گیا، جس میں نواز شریف کی نااہلی کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا سپریم کورٹ میرے آرمی چیف بننے سے پہلےپی ٹی آئی کے دوسرے لانگ مارچ کےدوران پانامہ پیپرز پر سماعت شروع کرچکی تھی۔ ہم (فوج)ہر چیز پر اثر انداز نہیں ہو سکتے ۔سپریم کورٹ کے جج خود بھی بہت کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔میں نے سپریم کورٹ تک رسائی نہیں کی تھی ۔جنرل فیض نے کی ہو توکچھ نہیں کہہ سکتا ۔ ان سے پوچھا گیا کہ جنرل فیض یہ کام خود سے کر سکتے تھے، اس پر جنرل باجوہ نے کہا کہ جب آپ کسی سے آٹھ کام کرا رہے ہوں تو وہ دس کر لے تو آپ اسےپوچھ نہیں سکتے۔ ویسے بھی پوری دنیا میں ہوتا ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں بہت سے کام اپنی مرضی سے بھی کررہی ہوتی ہیں۔جنرل باجوہ نے کہا نہیں یہ سپریم کورٹ کے پانچ ججز کا اپنا فیصلہ تھا جب ججز کہیں تو آپ کیا کر سکتے ہیں۔

جسٹس کھوسہ کا شریف فیملی سے ذاتی عناد بھی تھا ۔مجھے نواز شریف نے آرمی چیف بنایا تھا تو میں کیسے ان کو نا اہل کرا سکتا تھا۔اس کے علاوہ بھی نواز شریف ہمیشہ میرے ساتھ بہت اچھے اوربہت ڈیسنٹ تھے ۔فوج کا نواز شریف کی نااہلی میں کوئی لینا دینا نہیں ۔ سپریم کورٹ نے فوج کے ذمے ثبوت لانے کا ٹاسک لگایا تھا، جو ہم نے پورا کردیا، یو اے ای سے اقامہ ڈھونڈ کر دیا ۔ سابق آرمی چیف نے کہا کہ جب عدالت میں پانامہ کیس چل رہا تھا تو شاہد خاقان عباسی میرے پاس آئے اور مجھے دامن کوہ لے گئے وہاں ہم تین گھنٹے بیٹھے رہے ۔انہوں نے کہا کہ آپ پانامہ کیس میں نواز شریف کی مدد کریں۔میں نے کہا کہ ان کی زیادہ مدد نہیں کر سکتاکیونکہ انہوں نے خود کافی غلطیاں کی ہیں۔ نواز شریف کوصرف یہ کہنا چاہیے تھا کہ فلیٹ میرے والد نے خریدے اور بچوں کو دے دئیے تو ان پر ثبوتوں کا بوجھ نہ آتا، قطری خط بھی نہ لانا پڑتا ۔مجھے کسی دوست نے بہر حال بتایا تھا کہ میاں شریف نے ڈائیوو سے پانچ ملین ڈالر زرشوت لی تھی۔

تین ملین ڈالر کے فلیٹ خریدے اور دو ملین ڈالرزجہاد کے لیے یا کسی فلاحی ٹرسٹ کو دئیے تھے ۔میں نے اس شخص کو کہا تھا کہ اچھا میاں شریف نیکی کا کام بھی کرتے تھے ۔جنرل باجوہ نے کہا چودھری نثارنےبھی نواز شریف کو منع کیاتھا کہ جے آئی ٹی کے لیےسپریم کورٹ کو خط نہ لکھیں۔ پھر چوہدری نثار نے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران جے آئی ٹی میں شامل نہ کرنے کا بھی کہا لیکن نواز شریف یہ بات بھی نہیں مانے ۔ میں نے بھی چار پانچ بندوں کو پیغام دیا کہ نواز شریف کو کہیں کہ جے آئی ٹی میں فوج کے افسروں کو شامل کرنے کی مخالفت کریں ،لیکن نواز شریف بہت پر ُ اعتماد تھے وہ نہیں مانے۔ نواز شریف کو یقین تھا کہ ان کے پاس دستاویزات پوری ہیں۔یہ اپنی ایمانداری پر فوج کا ٹھپہ بھی لگوانا چاہتے تھے ۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا تو میں نے ڈی جی آئی ایس آئی کو بلایا اور کہا کہ ہمیں اس معاملے سے نکلنا ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ کا حکم ہے ہم کیسے نکل سکتے ہیں ۔میں نے اپنے بیٹے بیرسٹر سعد سے سپریم کورٹ کے نام خط بھی لکھوایا۔میں نے خط لکھ کر معذرت کرنے کا معاملہ کور کمانڈر کانفرنس میں رکھا تو انہوں نے کہا کہ ہم ماتحت ادارہ ہیں خط نہیں لکھ سکتے چنا نچہ خط نہیں بھیجا گیا ۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم لوگ بھی پہلے عمران خان کے عشق میں گرفتار تھے ہم سمجھتے تھے کہ نئی پارٹی ہے نئے چہرے ہیں بہتری لائیں گے لیکن ہم غلط ثابت ہوئے۔بہر حال تین وجوہات کی بنا پر مجھ پر ن لیگ کے دور میں دباؤ تھا ۔ن لیگ کی حکومت آئی تو اس نے مشرف پر آرٹیکل 6لگا دیا۔پھر پانامہ پیپر آگئے، میڈیا میں ہر طرف وزیر اعظم چورہے کی گردان ہونا شروع ہوگئی۔ ڈان لیکس کا ٹویٹ واپس لینے کی وجہ سے بھی فوج کے اندر سے دباؤ تھا ۔

ڈان لیکس کا ٹویٹ واپس لینے کے بعد مریم نواز کے سٹریٹجک میڈیا سیل نے فوج کی بینڈ بجا دی تھی کہ 71کے بعد دوسری پسپائی ہوئی ہے۔ان وجوہات کی بنا پر بھی نواز شریف کی زیادہ مدد نہیں کرسکتا تھا۔ اسی دوران سلمان شہباز ملنے آئے اورسپریم کورٹ کے ٹرائل میں مدد کی اپیل کی تو میں نے انہیں کہا کہ پہلے اپنی باجی کو تو سنبھالیں جس نے ٹویٹ پر ایسی کی تیسی کردی ہے جب جنرل مشرف پر آرٹیکل سکس لگا تو فوج نواز شریف کے خلاف ہو گئی اور پھر فوج نے مشرف کو بچا بھی لیا ۔ انہوں نے کہ پانامہ ٹرائل کے دوران میں نے شجاعت عظیم اور چودھری منیر کو پیغام دے کر نواز شریف کی طرف بھیجا کہ وہ استعفیٰ دے دیں نا اہل ہونے سے بچ جائیں گے۔ ایک آدھ سال کے بعد الیکشن ہے تو وہ دوبارہ بھی وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔شجاعت عظیم اور چودھری منیر نے فواد حسن فوا دکو بتایا اورفواد حسن نے نواز شریف کو استعفیٰ دینے پر قا ئل کر لیا تھا۔

نواز شریف استعفیٰ دینے پر رضا مند ہوگئے لیکن عین وقت پر مریم نواز نےانہیں منع کر دیا۔شجاعت عظیم اور چودھری منیر میرے سسر کے دوست تھے، اس طرح دونوں سے میرا تعلق بن گیا ۔نواز شریف سے پچھلے چار پانچ سالوں سے کبھی فون پر بات ہوئی نہ ملاقات۔ صرف کلثوم نواز کے انتقال پر میں نے ان سے فون کر کے تعزیت کی ۔ مریم نواز کی رہائی کے سوال پر انہوں نے جواب دیا نہیں!مریم نواز کے خلاف بھی کیسز کمزور تھے ۔ مریم نواز سے آخری ملاقات وزیر اعظم ہاؤس کے عشائیہ میں ہوئی تھی تب کلثوم نواز بھی زندہ تھیں۔اس کے بعد کبھی مریم نواز سے ملاقات نہیں ہوئی ۔