کراچی(اسٹاف رپورٹر)گارڈن کے علاقےمیں ہندو ڈاکٹر بیربل گنیانی کے قتل کی تفتیش میں پیش رفت سامنے آنے لگی ، پولیس نے ڈاکٹر کے ہمراہ زخمی ہونے والی اسسٹنٹ قرۃ العین اس کے بھائی اور سابقہ منگیتر کو شامل تفتیش کرتے ہوئے حراست میں لے لیا گیا ہے تاہم اب تک کی جانے والی تفتیش اور شواہد کی روشنی میں قتل کرنے والے ملزمان کا تاحال معلوم نہیں ہوسکا
گارڈن شعبہ تفتیش پولیس نے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ماہر امراض چشم ڈاکٹر بیربل گنیانی کے قتل میں ملوث ہونے کے شبہ میں ان کی اسسٹنٹ قرۃ العین دختر شوکت کو حراست میں لے کر تفتیش کے لیے ویمن پولیس اسٹیشن صدر منتقل کر دیا ، جبکہ پولیس نے قرۃ العین کے بھائی اویس اور سابقہ منگیتر زبیر کو بھی حراست میں لیکر شامل تفتیش کرلیا ہے جن سے تفتیش کی جارہی ہے ،
تفتیشی ذرائع کا کہنا تھا کہ 30 مارچ کو ڈاکٹر بیربل گیانی شام کے وقت اپنا آئی کلینک بند کرکے اپنی کار نمبر ANK-784 سفید رنگ کی سوزوکی الٹو میں چیلا رام روڈ سے گھر جانے کے لیے نکلےتھے اور جب تقریباً شام 6 بجکر 22 منٹ پر غلام حسین روڈ گارڈن ویسٹ گڈ لک میرج لان سے لو لینڈ روڈ پر موڑ کاٹا تو موٹرسائیکل سوار 2 نامعلوم ملزمان نے کار پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں دو گولیاں ڈاکٹر بیربل گیانی کے سر میں لگیں اور ایک گولی قرۃ العین کے پیٹ سے چھوتی ہوئی نکل گئی تھی ،مذکورہ واقعے کا مقدمہ 31 مارچ 2023 کو مقتول ڈاکٹر کے بھائی ریود گنیانی کی مدعیت میں نامعلوم ملزمان کے خلاف گارڈن تھانے کیا گیا تاہم مدعی نے پولیس کو ایف آئی درج کراتے ہوئے شبہ ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حادثے میں بالواسطہ قرۃ العین بھی ملوث ہو سکتی ہے۔
مدعی کا بیان میں کہنا تھا کہ ڈاکٹر بیربل سینیئر ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کے ایم سی کراچی سے ریٹائرڈ تھے اور گلشن اقبال بلاک 13 ڈی 3 میں رہائش پزیر تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر بیربل پر حملے کے واقعے کو کئی لوگوں نے دیکھا، بیربل ایک ہمدرد اور لوگوں کے کام آنے والے اچھے انسان تھے بظاہر کسی سے رنجش یا دشمنی نہیں تھی،
ابتدائی تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ ڈاکٹر بیربل گینانی اور قرۃ العین کے درمیان 11 سال سے شناسائی تھی، قرۃالعین ڈاکٹر بیربل کے ساتھ ہی کلینک آتی جاتی تھیں، دوران تفتیش یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ڈاکٹر نے قرۃ العین سے شادی کا بھی اظہار کیا تھالیکن قرۃ العین نے انھیں کہا کہ وہ سوچ کر جواب دیں گی لیکن انھوں نے زبیر سے بھی شادی نہیں کی شبہ ہے کہ اس قتل میں زبیر یا اس کا بھائی ملوث ہوسکتے ہیں تاہم ابتدائی طور پر لگتا ہے کہ ڈاکٹر کو ذاتی رنجش کی بنا پر قتل کیا گیا،
ابتدائی بیان میں خاتون نے کہا تھا کہ انہوں نے ملزمان کی شکل نہیں دیکھی میں نے صرف گاڑی کی ڈرائیونگ سائیڈ سے چنگاریاں نکلتی ہوئی دیکھیں تھیں۔پولیس نے وقوع سے ملنے والے نائن ایم ایم کے تین خولوں کا فارنزک کرا گیا لیکن جو ہتھیار قتل کے لیے استعمال کیا گیا وہ ماضی میں کبھی استعمال نہیں ہوا۔ پولیس کادعوی ہے کہ شامل تفتیش ہونے والے تینوں ںافراد سے پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری ہے جلد یہ معمہ حل کرلیا جائے گا ،
تفتیشی ذرائع نے بتایاکہ اب تک کی جانے والی تفتیش میں بھتہ خوری یا ٹارگٹ کلنگ کے کوئی شواہد نہیں ملے ابتک کی جانے والی تفتیش ذاتی رنجش ہی معلوم ہورہی ہیں ،تفتیشی افسران کے مطابق مقتول کی لاش ورثا کے حوالے کردی گئی جسے ورثا ایدھی ایمبولینس کے ذریعے آبائی گاؤں سنجھورو لے کر روانہ ہوگئے،
تفتیشی ذرائع نے مزید بتایاکہ ابھی تک فائرنگ کرنے والے ملزمان کا سراغ نہیں لگ سکا ہے جس مقام پر گولیاں برسائی گئی اس قریب کسی بھی مقام پر سی سی ٹی وی نصب نہیں تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملزمان نے مکمل منصوبہ بندی اور ریکی کے بعد ڈاکٹر کی گاڑی پر گولیاں برسائی تاہم پولیس مختلف پہلووں سے تفتیش کررہے ہیں