اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پیشگی تسلیم کرلیں لیکن اب آخری شرط پر بات چیت جاری ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کے زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں لیڈیز پرس اور موبائل فون باہر رکھوا لیے گئے۔
وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کو بریفنگ دی۔
وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ ہم نے ہمیشہ ملک کو مشکل حالات سے نکالا، حالات گھمبیر ہیں لیکن ہماری نیت صاف ہے ان شاء اللہ حالات بہتر ہوں گے وقت آئے گا حالات بدل جائیں گے یہ میرا ایمان ہے۔
انہوں نے کہا کہ کہا کہ ملک کو سیلاب کی تباہ کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، 100 ارب روپے صرف وفاق سے سیلاب متاثرین کو دئیے گئے، ہم نے 10 کروڑ غریب خاندانوں کو مفت آٹا فراہم کرنے کا آغاز کیا، پنجاب، خیبرپختونخوا اور اسلام آباد میں غریبوں کو رمضان میں مفت آٹا فراہم کر رہے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف نے وفاقی حکومت کے ہاتھ پاؤں باندھے ہوئے ہیں، پچھلی حکومت کے آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے مہنگائی کی لہریں آ رہی ہیں، ہم نے آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط مان لی گئی ہیں تاہم اب آئی ایم ایف کی آخری شرط پر بات چیت جاری ہے، برادر ممالک پاکستان کی بڑی مدد کر رہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ عمران خان نے پاکستان کو معاشی دلدل میں پھنسا دیا، دوست ممالک کے خلاف سابق حکمرانوں نے بدزبانی کی، چین کے منصوبوں پر سنگین الزامات لگائے گئے، عمران اور حواریوں نے کہا کہ چین کے منصوبوں میں 45 فیصد کرپشن ہوئی، چین نے 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور اسی مددگار دوست پر بھونڈے الزامات لگائے گئے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ایک انفرادی شخص کا حکومت پاکستان کی پالیسی سے کیا تعلق؟ عمران خان نے پاکستان کو مشکلات میں مبتلا کیا، پاکستان کی ساکھ داؤ پر لگا دی، عمران خان نے سخت ترین شرائط پر آئی ایم ایف پروگرام پر دستخط کیے پھر خود خلاف ورزی کرکے اس پروگرام کو معطل کر دیا، عمران خان نے آئی ایم ایف پروگرام ناکام بنانے کی سازش کی، عمران خان کے وزیر رنگے ہاتھوں سازش کرتے پکڑے گئے۔
انہوں نے آج کل اسرائیل سے تجارت سے متعلق پھیلی ہوئی افواہوں پر کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تجارت شروع کرنے کا جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے جو قابل مذمت ہے، فلسطینیوں کو حق ملنے تک پاکستان اپنے اصولی موقف پر کاربند رہے گا۔
انہوں ںے کہا کہ عمران خان دور میں ججوں کو دھمکیاں ملیں، ریفرنس دائر ہوئے، عدلیہ کا ہماری قیادت اور ارکان کے ساتھ رویہ کچھ اور تھا، عمران خان کی اہلیہ عوامی نمائندہ اور سرکاری عہدیدار نہیں تھیں تو مریم نواز شریف کے پاس کون سا عہدہ تھا؟ یہ ترازو کے پلڑوں کا فرق ہے۔