نواز طاہر
ملک میں موسم کی طرح قومی سطح پر سیاسی موسم پر بھی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات دکھائی دینے لگے ہیں۔ تیزی سے چڑھنے والے پارے کا درجہ کم ہوا ہے اور سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ یہ اچانک تبدیلی کیسے اور کس کی مداخلت سے آئی؟ لیکن آج عدلیہ کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد بعد دونوں فریقین کے پھر سے آمنے سامنے آنے کا امکان ہے۔ جس کیلئے پی ٹی آئی کی پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی پر عملدرآمد شروع ہوجائے گا۔ جس کا اعلان گزشتہ ہفتے کے اواخر میں کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے موجودہ تین رکنی بنچ پر پی ڈی ایم نے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور مسلم لیگ ’ن‘ کے قائد نواز شریف نے اس بنچ کا بائیکاٹ کرنے کا بیان جاری کیا تھا۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی نے عدلیہ دفاع تحریک کیلئے بار ایسو سی ایشنز کو متحرک کرنے اور سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملانے کیلیے کمیٹی قائم کر دی تھی۔ لیکن گزشتہ روز سپریم کورٹ کے فل بنچ کے روبرو صورتحال اس سے مختلف ہوئی۔ جہاں حکومتی اتحادی جماعتوں کے وکلا نے بائیکاٹ نہیں کیا اور سیاسی بیانات میں بھی شدت کم رہی۔ جبکہ اسی دوران نون لیگ کے قائد نواز شریف عمرہ کی سعادت کیلئے سعودی حکومت کی خصوصی دعوت پر سعودی عرب پہنچ رہے ہیں، تو ان کی صاحبزادی اور نون لیگ کی چیف آگنائزر مریم نواز لاہور میں اہم ترین اجلاس کی صدارت چھوڑ کر اچانک اسلام آباد روانہ ہوگئیں۔ ان کی غیر موجودگی میں حمزہ شہباز نے اجلاس کی صدارت کرنا تھی۔ لیکن وہ بھی اجلاس میں شریک نہ ہوئے۔
ٹکٹ ہولڈرز کے اس اجلاس کی صدارت مسلم لیگ ’ن‘ لاہور کے صدر سیف الملوک کھوکھر نے کی۔ نون لیگ کی فیملی میں اس تبدیلی کے بعد سپریم کورٹ میں حکومتی اتحادی جماعتوں کی جانب سے بھی نرم رویہ اختیار کیا گیا۔ جبکہ اس سے پہلے خیال کیا جا رہا تھا کہ حکومتی وکلا بایئکاٹ کریں گے یا سخت رویہ اختیار کریں گے۔
اس کے برعکس پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے بھی سخت بیان بازی سے گریز کیا اور صرف سینیٹر اعجاز چوہدری کی طرف سے کہا گیا کہ اٹارنی جنرل کا عدالتی بائیکاٹ سے پیچھے ہٹنے کا اعلان پی ڈی ایم کے منہ پر طمانچہ ہے۔ بعد دوپہر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے برطانوی وفد سے ملاقات کے بعد ٹوئٹ میں کہا ’’آج ہم اپنی آئینی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔ جہاں پہ ہم ترکیہ کی طرح بڑھ سکتے ہیں تو دوسری جانب میانمار بن سکتے ہیں۔ ہر ایک کو انتخاب کرنا چاہیے کہ آیا وہ کھڑا ہے۔ جیسا کہ پی ٹی آئی کھڑی ہے۔ آئین قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کے ساتھ یا پھر کرپٹ مافیا، جنگل کا قانون اور فاشزم کے ساتھ‘‘۔ اس بیان پر سیاسی مبصرین نے عمران خان کا یہ بیان سخت رویے پر قائم رہنا قرار دیا ہے۔
سینئر قانون دان اور سیاسی مبصر ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر جہانگیر اشرف وینس کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ بادی النظر میںمیں پاکستان کی سیاسی صورتحال کو پوری دنیا اور خاص طور پر دوست ممالک مانیٹر کر رہے ہیں۔ اور اب لگتا ہے کہ وہ اس میں کچھ کردار بھی ادا کرنے جارہے ہیں۔ اسی دوران سپریم کورٹ کا راستہ بھی آئین اور قانون کا راستہ ہے۔ وہ درست سمت میں گامزن ہے۔ لیکن اس کا رحجان دیکھنے والے اپنی اپنی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ ججوں میں تقسیم کا نظر آنا ہے۔ اور سیاسی جماعتوں کا ججوں پر سیاست کرنا ہے۔ حکومت اور اس کے وکلا نے عدالتی کارروائی میں قانون و قاعدے کے مطابق کردار ادا کیا ہے اور اس مثبت عمل کو عمران خان کی پارٹی شائد درست نہیں مانتی یا اپنے ایجنڈے کے برعکس سمجھتے ہوئے اس کے خلاف سخت گیر رویہ رکھے ہوئے ہے۔ جو موجودہ حالات میں ملکی مفاد کے برعکس ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی ذرائع کا دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی عدلیہ پر کسی بھی حملے کا بھرپور دفاع کرے گی اور اس مقصد کیلئے وکلا کی تنظیموں کو متحرک کر چکی ہے اور ان کی مدد سے تحریک چلائے گی، جس کا اعلان چیئرمین عمران خان کرچکے ہیں۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ تحریکِ انصاف نے گزشہ مہینے مارچ کے پہلے ہفتے میں ہی بار ایسوسی ایشنز کو متحرک کرنے کی پلاننگ کرلی تھی اور وکلا تنظیموں سے مسلسل رابطہ رکھا تھا۔ پی ٹی آئی اس وقت تک ملک کی چھیانوے بار ایسوسی ایشنز کی مکمل حمایت کا دعویٰ کر رہی ہے اور اس میں ان وکلا رہنمائوں کے نام بھی شامل ہیں جن کی سیاسی وابستگی پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں۔
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما عبدالقادر شاہین کا کہنا تھا کہ بحیثت سیاسی کارکن میں ہر وقت سمجھتا ہوں کہ عمران خان سیاسی بالغ النظری کا مظاہرہ کریں گے۔ لیکن میری یہ توقع پوری نہیں ہوئی۔ پیپلز پارٹی ڈائیلاگ اور آئین و قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والی پارٹی ہے۔ جہاں تک میاں نواز شریف کے مجوزہ دورہ سعودی عرب کی بات ہے تو سیاسی رہنمائوں کے دوسرے ملکوں کے قائدین سے رابطے اور تعلقات ہوتے ہیں۔ اس دورے کو میں تو مثبت اثرات اور مذہبی امور کی ادائیگی سمجھتا ہوں۔ اگر اس کے سیاسی نتائج بھی ہوں تو میری نظر میں ملکی مفاد میں ہی ہوں گے۔
رات نو بجے یہ سطور لکھے جانے تک ایک جانب وفاقی کابینہ کا اجلاس جاری تھا تھا تو دوسری جانب عمران خان اپنے اہم رہنمائوں کے ساتھ تازہ صورتحال پر غور کر رہے تھے۔