اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا انتخابات کیس میں 25 صفحات پر مشتمل تفصیلی نوٹ جاری کر دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ کے 25 صفحات پر مشتمل تفصیلی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب،کے پی الیکشن کا از خود نوٹس چار تین سے مسترد ہوا، میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کی رائے سے متفق ہوں، سپریم کورٹ مسلسل سیاسی تنازعات کے حل کا مرکز بنی ہوئی ہے، 27 فروری کو چائےکےکمرے میں اتفاق رائے ہوا کہ میں بینچ میں بیٹھوں گا، 23 فروری کی سماعت کے حکم میں جسٹس یحیٰی آفریدی کا الگ نوٹ بھی تھا، جسٹس یحیٰی آفریدی نے ناقابل سماعت ہونےکی بنیاد پرازخود نوٹس اور درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔
تفصیلی نوٹ میں کہا گیا ہے تحریک انصاف کی درخواست پر کارروائی شروع کرنا قبل از وقت تھی، جس انداز سے کارروائی ہوئی اس سے عدالت سیاسی تنازعات کا شکار ہوئی۔ کارروائی شروع کرنے سے سیاسی جماعتوں کو عدالت پراعتراض اٹھانے کی دعوت دی گئی۔ اس قسم کے اعتراضات سے عوام کے عدالتوں پراعتماد پراثر پڑتا ہے۔
نوٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالتی کارروائی کے دوران بھی عدالت میں اعتراضات داخل کیے گئے۔ ملک کی سیاسی صورت حال بہت زیادہ آلودہ ہے۔ عدالت کو درخواست گزار کی نیک نیتی بھی دیکھنی چاہیے۔سیاست دان تنازعات عدالت میں لانے سے ہارتے یا جیتتے ہیں تاہم عدالت ہر صورت ہار جاتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے، سپریم کورٹ نے ماضی سےکوئی سبق نہیں سیکھا، ملک ایک سیاسی اور آئینی بحران کے دہانے پرکھڑا ہے، وقت آگیا ہےکہ تمام ذمے دار ایک قدم پیچھےہٹیں اور کچھ خود شناسی کا سہارا لیں۔
نوٹ میں کہا گیا ہےکہ پنجاب،کے پی انتخابات کی تاریخ کا ازخود نوٹس خارج کیا جاتا ہے، درخواستوں اور از خود نوٹس کو خارج کرنےکی تین بنیادی وجوہات ہیں، فل کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 184 تھری کے استعمال کے بنیادی اصولوں کی پابندی بینچ پرلازم تھی، عدالت کو اپنی غیر جانبداری کے لیے سیاسی جماعتوں کے مفادات کے معاملات پر احتیاط برتنی چاہیے، عدالت کو سیاسی درخواست گزار کا طرز عمل اور نیک نیتی بھی دیکھنی چاہیے، درخواست گزاروں کا رویہ اس بات کا متقاضی نہیں کہ 184/3کا اختیار سماعت استعمال کیا جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ازخود نوٹس لینےکا مطلب غیر جمہوری اقدار اور حکمت عملی کو فروغ دینا ہوگا، ماضی کے فیصلوں کو مٹایا نہیں جاسکتا لیکن کم ازکم عوامی اعتماد بحال کرنےکی کوشش کی جاسکتی ہے، انتخابات کی تاریخ کامعاملہ ایک تنازع سے پیدا ہوا ہے جو بنیادی طور پر سیاسی نوعیت کا تھا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے درست کہا کہ عدالت کو ازخودنوٹس کے استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے، سپریم کورٹ کو یکے بعد دیگرے تیسری بار سیاسی نوعیت کے تنازعات میں گھسیٹا گیا ہے۔
تفصیلی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ
جسٹس اطہر من اللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ واضح رہےکہ بینچ سے الگ ہوا نہ ہی اپنے مختصرنوٹ میں ایسی کوئی وجوہات دی تھیں، میں نے بھی اپنے نوٹ میں درخواستوں کے ناقابل سماعت ہونے کے بارے میں بلا ہچکچاہٹ رائے دی، جسٹس منصور اور جسٹس مندوخیل کی تفصیلی وجوہات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں،عدالت کو سیاسی تنازع سے بچنے کے لیے اپنے نوٹ میں فل کورٹ کی تشکیل کی تجویز دی تھی، فل کورٹ کی تشکیل سے عوامی اعتماد قائم رہتا۔
یاد رہےکہ چیف جسٹس نے غلام محمد ڈوگر ٹرانسفرکیس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے نوٹ پر انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس لیا تھا اور 9 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ میں 23 فروری کو ہونے والی ازخود نوٹس کیس کی پہلی سماعت میں جسٹس اطہرمن اللہ بینچ سے علیحدہ ہوگئے تھے اور انہوں نے الگ سے نوٹ بھی تحریر کیا تھا جو اب تفصیلی طور پر جاری کردیا گیا ہے۔
9 رکنی بینچ میں شامل 4 ججز بینچ سے علیحدہ ہوگئے تھے اور انہوں نے ازخود نوٹس کو مسترد کیا تھا جن میں جسٹس اطہر من اللہ کے علاوہ جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔