امت رپورٹ :
وفاقی حکومت نے جارحانہ اننگ کھیلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جس کے تحت انتشار پھیلانے والوں کے خلاف پوری قوت سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار ہے۔ اس سلسلے میں بڑی گرفتاریوں کا موسم آگیا ہے۔ خاص طور پر عمران خان کی گرفتاری سے متعلق حکومت نے اپنے پرانے پلان پر نظرثانی کی ہے اور اب کسی رعایت اور مصلحت کے بغیر پکا ہاتھ ڈالنے کا لائحہ عمل طے کیا گیا ہے۔
اسی طرح سوشل میڈیا پر قومی اداروں کے خلاف زہر اگلنے والوں کے پیچ کسنے کا بھی حتمی فیصلہ کر کے ان کی بچت کے راستے مسدود کیے جارہے ہیں۔ اس معاملے سے آگاہ باخبر ذرائع کے بقول ممکنہ حکومتی اقدامات کے اثرات آنے والے چند دنوں میں دکھائی دینے لگیں گے۔ دوسری جانب چودہ مئی کو پنجاب میں الیکشن کے انعقاد کا امکان معدوم ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وفاقی حکومت سپریم کورٹ کی متعین کردہ تاریخ پر پنجاب میں الیکشن کرانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ ایک بار پھر فنڈز کی عدم دستیابی اور سیکورٹی صورت حال کو جواز کے طور پر پیش کیا جائے گا۔
اسلام آباد میں موجود باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ وفاقی حکومت نے انتشار پھیلانے کی کوششوں کو پوری قوت سے روکنے اور اس عمل میں شامل عناصر کی ’’بھل صفائی‘‘ کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں فہرستیں مرتب کی جارہی ہیں۔ آنے والے چند دنوں میں ایسے تمام عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے گی جو کسی نہ کسی صورت انتشار پھیلانے میں ملوث ہیں۔ جبکہ کوشش کی جائے گی کہ ان عناصر کو ایسے ٹھوس شواہد کے ساتھ گرفتار کیا جائے کہ ان کی جلد ضمانت ممکن نہ ہو سکے۔ اسی طرح عمران خان کے خلاف بھی پکا ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری سے متعلق اپنے مجوزہ پلان پر حکومت نے نظرثانی کی ہے۔ پی ڈی ایم کے ایک متعبر ذریعے نے بتایا کہ قبل ازیں پی ٹی آئی کے خلاف جارحانہ اننگ کا آغاز کرنے اور عمران خان کی گرفتاری کے لیے آئی ایم ایف پروگرام بحالی کا انتظار کیا جارہا تھا۔ پی ڈی ایم میں شامل پارٹیوں میں سے بیشتر کی رائے تھی کہ اگر موجودہ حالات میں عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو اس کے ردعمل میں ملک میں جاری سیاسی افراتفری اور بدامنی میں اضافہ ہوگا۔ اس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے کے سلسلے میں ہونے والے مذاکرات متاثر ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ طے کیا گیا تھا کہ پہلے آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو جائے، اس کے فوری بعد جارحانہ اننگ کا آغاز کیا جائے گا۔ تاہم تیزی سے تبدیل ہونے والے ملکی سیاسی حالات نے حکومت کو اپنے اس مجوزہ پلان پر نظرثانی پر مجبور کر دیا ہے۔
خاص طور پر عمران خان کی جانب سے دوبارہ سڑکوں پر آنے کی دھمکی کے پیش نظر حکومت نے اپنے طے شدہ پلان میں تبدیلی کی ہے۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے اعلان کیا ہے کہ اگر وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کی اعلان کردہ تاریخ پر پنجاب میں الیکشن کرانے سے راہ فرار اختیار کی تو وہ دوبارہ سڑکوں پر آجائیں گے۔ ذریعے کے بقول اب یہ عمران خان پر منحصر ہے کہ وہ کب سڑکوں پر نکلنے کی دھمکی پر عمل کرتے ہیں۔ کیونکہ ہفتے ڈیڑھ ہفتے میں یہ واضح ہو جائے گا کہ حکومت چودہ مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ ذریعے کے مطابق اگر عمران خان نے ماہ رمضان میں دوبارہ سڑکوں پر آنے کی کوشش کی تو انہیں عید جیل میں گزارنا پڑ سکتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف درج ہونے والے بغاوت کے نئے مقدمے میں ان کی گرفتاری خارج از امکان نہیں۔ اس مقدمے کی اس لیے اہمیت ہے کہ اسے کسی نامعلوم درخواست گزار کی شکایت پر درج نہیں کیا گیا، بلکہ مجسٹریٹ اسلام آباد نے درج کرایا ہے۔ یوں یہ ایف آئی آر سرکاری مدعیت میں کاٹی گئی ہے۔ اسی طرح ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں چلنے والا توشہ خانہ کیس بھی ایک بار پھر اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے ہفتے کے روز عمران خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔ تاہم حسب روایت عمران خان سیشن کورٹ میں پیش نہیں ہوئے۔ ان کے وکیل نے یہ عذر پیش کیا کہ عمران خان اور ان کے کسی سینئر وکیل کو کیس کے سمن موصول نہیں ہوئے تھے، جس پر فاضل جج نے کیس کی سماعت گیارہ اپریل تک ملتوی کر دی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اگر متذکرہ تاریخ پر بھی عمران خان پیش نہیں ہوتے تو ان کے خلاف سیشن کورٹ ایک بار پھر کارروائی کا حکم دے سکتا ہے۔
عمران خان کی جانب سے دوبارہ سڑکوں پر نکلنے کے خلاف صرف حکومتی مشینری ہی حرکت میں نہیں آئے گی، بلکہ دفاع پاکستان کونسل نے بھی پی ٹی آئی کا راستہ روکنے کا اعلان کر دیا ہے۔ مختلف مذہبی جماعتوں پر مشتمل یہ اتحاد دو ہزار بارہ سے غیر متحرک تھا۔ ہفتے کے روز غیر متوقع طور پر دفاع پاکستان کونسل کے اہم رہنما مولانا احمد لدھیانوی نے ایک زوردار پریس کانفرنس کی اور نام لیے بغیر پی ٹی آئی کو انتباہ کیا کہ ’’کونسل ملک میں کسی قسم کا انتشار برداشت نہیں کرے گی اور اگر ’’وہ‘‘ سڑکوں پر نکلے تو ہم ان کا راستہ روکیں گے۔‘‘
مولانا احمد لدھیانوی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’یہ ممی ڈیڈی والے ہمارے سامنے نہیں ٹھہر سکیں گے۔‘‘ ذرائع کے مطابق دفاع پاکستان کونسل کا ایک طویل عرصے بعد اچانک متحرک ہونا معنی خیز ہے۔ اب اگر عمران خان اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر نکالتے ہیں تو حکومتی مشینری کے علاوہ انہیں دفاع پاکستان کونسل کے کارکنوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے نتیجے میں تصادم خارج از امکان نہیں۔
قومی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر نفرت انگیز پروپیگنڈا کرنے والے عناصر کے خلاف بھی بھرپور کارروائی جاری ہے اور اب اس کا دائرہ کار وسیع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر جعلی ناموں کے ساتھ درجنوں اکائونٹس بنا کر قومی اداروں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرنے والے متعدد پی ٹی آئی کے ’’کی بورڈ واریئر‘‘ اس وقت زیرحراست ہیں۔ دوران تفتیش ان میں سے بیشتر نے اس پورے نیٹ ورک کو بے نقاب کر دیا ہے جو قومی اداروں کے خلاف منظم پروپیگنڈا مہم چلا رہا تھا۔ اس تفتیش کی روشنی میں حاصل ہونے والی معلومات کے تحت مزید گرفتاریاں کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ جبکہ بیرون ملک موجود ان سوشل میڈیا عناصر کے گرد بھی گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے۔ مختلف ممالک میں بیٹھ کر ملک اور اداروں کے خلاف نفرت انگیز کمپین چلانے والے ان عناصر کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ ایسے عناصر کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ (نائیکوپ) بلاک کرنے کا آپشن بھی زیرغور ہے۔