نواز طاہر :
صدر کی جانب سے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل نظرثانی کیلیے پارلیمان کو واپس بھیجنے کے بعد پی ٹی آئی نے آئینی تنازعے کو بڑھانے کیلیے سرگرمیاں تیز کردی ہے۔ پی ٹی آئی نے نیا شوشہ چھوڑتے ہوئے کہا ہے کہ بل پر 24 گھنٹوں میں ریفرنس دائر کیا جائے گا، جس کے بعد پارلیمان اور عدلیہ ایک بار پھر آمنے سامنے ہوں گے۔
آئینی و قانونی ماہرین کی رائے میں بل میں کچھ درست چیزیں بھی ہیں اور کچھ نکات پر نظرثانی کی ضرورت ہے، جیسا کہ اصل مسئلہ سوموٹو کا آرہا ہے۔ ادھر حکومت نے صدر کی جانب سے بل منظور نہ ہونے پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلالیا ہے، جس میں اس بل کی دوباری منظوری لی جائے گی اور اس کے بعد یہ از خود قانون بن جائے گا۔ تاہ مجلتی پر تیل کا کام کرنے کی پی ٹی آئی کوششوں کے باعث عدلیہ کے اختیارات اور ان کے استعمال کے حوالے سے صورتحال گمبھیر ہوتی جارہی ہے۔
جبکہ اسی دوران اختیارات کے معاملے پر سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی غیر موجودگی میں کام کرنے والے بنچ کے فیصلے پر اپنے تفصیلی اختلافی نوٹ ( فیصلے) میں قراردیا ہے کہ ’’متکبرانہ آمریت کی دھند میں لپٹے کمرہ عدالت سے نکلے فیصلے آئین کو برطرف نہیں کر سکتے‘‘ ۔ اس فیصلے میں انہوں نے عدلیہ کے اختیارات، ان کے استعمال اور آئین میں عدلیہ کو عطا کیے گئے اختیارات کی تشریح کی، جو بادی النظر میں پارلیمان کے منظور کردہ بل کو سپورٹ کرتی ہے۔ آئینی مبصرین کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184 کی ذیلی شق 3 کا اب تک استعمال ہی سیاسی اور انتظامی معاملات میں مداخلت کیلئے ہوتا رہا ہے اور اس کیلئے قانون سازی ہوسکتی ہے۔ جو قانون سازی کی گئی ہے یہ بار کونسلز کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے، جیسے ہی قانون منظور ہوگا، اس کا اطلاق اور عملدرآمد ہوگا۔
سینئر قانون دان سید منظور علی گیلانی کا اس ضمن میں ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صدر کی طرف سے واپس بھیجا جانے والا بل اگلے چند روز میں منظور ہوجائے گا اور وہ قابلِ عمل ہوگا۔ اسے وکلاء تنظیمیں ماضی میں سپورٹ کرچکی ہیں اور اس کیلئے قانون سازی کرنے کا مطالبہ بھی کرتی رہی ہیں۔ یہی نہیں، مطالبہ کرنے وکلا میں پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنما و سپریم کورٹ بار کے سابق صدر حامد خان خود شامل ہیں، جو ایک کیس میں خود کہہ چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کے رولز بنانے کیلئے پارلیمان خود بھی قانون سازی کرسکتی ہے۔ اور میرے خیال میں یہی ایک وجہ ہے کہ حامد خان اس کیس میں پی ٹی آئی کی نمائندگی نہیں کر رہے، کیونکہ وہ پہلے قانون دان، وکیل رہنما اور بعد میں پی ٹی آئی کے رہنما بنے۔ اب بھی بار میں وہ بار کے اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹ سکے۔ جبکہ وکلا کا سب بڑا ادارہ پاکستان بار کونسل ہے جو ایسی ہی قانون سازی کا مطالبہ کرچکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے صوبوں کی بار کونسلز اور بار ایسو سی ایشنز بھی ایسا کرتی رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس بننے سے پہلے خود کہتے رہے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کو نہیں ہونا چاہیئے اور سپریم کورٹ کے رولز بھی بننا چاہئیں۔ لیکن جیسے وہ خود چیف جسٹس بنے تو سبھی کچھ بھول گئے اور جس جس طریقے سے انہوں نے انتظامی معاملات میں عدالتی مداخلت کی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
سید منظور گیلانی نے بتایا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، چیف جسٹس بننے سے پہلے خود بھی ایک بار سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا تذکرہ اپنے فیصلے میں کرچکے ہیں اور پھر جب خود چیف جسٹس بنے تو انہوں نے یہ رولز نہیں بنائے، چنانچہ پارلیمان نے قانون سازی کردی ہے، اس پر اعتراض کیسا؟ پھر دوسری اہم بات یہ ہے کہ پارلیمان میں قرارداد کس جماعت نے کی اور اس جماعت کے رہنما خالد مگسی کا تعلق کس صوبے سے ہے؟ وہ صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ صوبہ آبادی کے اعتبار سے چھوٹا صوبہ کہلاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ چھوٹے صوبوں کو بھی تحفظات تھے، جنہیں دور کرنے کیلئے اقدام اٹھائے جارہے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ آئین میں آرٹیکل 184 مع شق 3 رکھنے کی روح اور منشا کیا تھی؟ وہ یہ تھی کہ جب عدلیہ محسوس کرے کہ کوئی ایسا معاملہ ہے جس پر قانون موجود نہیں تو اس کا جائزہ لیکر حل تلاش کرے۔ اس کا مقصد انتظامیہ کے معاملات میں یا پارلیمان کے کام میں مداخلت کرنا ہرگز نہیں، نہ ہی من مانی کرنا جس کی نشاندہی پنجاب و خیبر پختونخوا اسمبلی ازخود نوٹس میں جسٹس اطہر من اللہ کے تفصیلی فیصلے میں کی گئی ہے۔
مزید برآں سپریم کورٹ ہی کے سینئر جج قاضی فائز عیسیٰ کا حالیہ فیصلہ بھی قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کا راستہ دکھاتا ہے۔ سید منظورعلی گیلانی کا مزید کہنا تھا کہ کس قانون سے وقتی طور پر کس کو فائدہ یا نقصان پہنچتا ہے اس سے بالا ہو کر میں صرف ایک سوال اٹھاتا ہوں کہ کیا چیف جسٹس کے پاس بنچ تشکیل دینے کے بعد اس سے کسی جج کو نکالنے کا اختیار ہے؟ اگلی بات پھر کریں گے کہ جب بنچ کے اراکین کی تعداد زیادہ تھی تو پھر بنچ کی تعداد کم کیسے ہوئی؟
بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین جسٹس (ر) حافظ عبدالرحمان انصاری کا کہنا تھا کہ صدر مملکت نے مسودہ قانون اپنی آئینے اختیارات کے تحت نظر ثانی کیلئے پارلیمان کو واپس بھجوایا ہے۔ اگلا قدم اب پارلیمان نے اٹھانا ہے کہ اس نے کس طرح اس پر غور کرکے فیصلہ کرنا ہے۔ جو مسودہ قانون صدر نے واپس بھجوایا ہے اس میں بعض امور ایسے ہیں، جن پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور کچھ امور ہیں جن کی ضرورت ہے۔
آئین کے آرٹیکل 184 مع ذیلی شق 3 کے تحت شروع کی جانے والی از خود نوٹس کی کارروائی کے بعد ہونے والے فیصلے پر اپیل کا حق ہونا چاہیے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ سزا کے خلاف اپیل بنیادی حق ہے اور یہ حق ملنا چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو مسودہ قانون صدر نے واپس بھجوایا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک وقتی ضرورت پوری کرنے کیلئے منظور کیا گیا ہے اس کے مستقبل میں منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
1997ء میں حکومت اور عدلیہ کے درمیان بحران پیدا ہوا تھا تب میں پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین کی حیثیت سے اس بحران کو بہت قریب سے دیکھ چکا ہوں۔ حکومت کو اب بل پر نظرثانی کرتے ہوئے خاص طور پر ان امور کو دیکھنا ہوگا کہ آئین اور قانون میں دیئے گئے اختیارات کے استعمال میں ٹکراؤ پیدا نہ ہو اور غلط قانون سازی سے بچا جائے اور بہتر قانون سازی پر توجہ دی جائے۔ حکومت اور عدلیہ تنازع اور اس میں عدلیہ کے اپنے ہی کردار کے حوالے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ، میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔