امت رپورٹ
پی ٹی آئی اسلام آباد اور راولپنڈی کی قیادت پر اس قدر خوف کے سائے ہیں کہ بیشتر عہدیداران اور رہنمائوں نے پارٹی کے مرکزی سیکریٹریٹ آنا چھوڑ رکھا ہے۔ خاص طور پر بیس مارچ کے بعد سے جڑواں شہروں سے تعلق رکھنے والی پی ٹی آئی قیادت کے بیشتر رہنما غائب ہیں اور شاذونادر ہی پارٹی کے مرکزی دفتر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ گرفتاری کے ڈر سے اپنے گھروں پر بھی نہیں سو رہے ۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ اٹھارہ مارچ کو اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سمیت پارٹی کے ایک درجن سے زائد رہنمائوں کے خلاف پولیس افسران پر حملے، املاک کو نقصان پہنچانے، گاڑیوں کو آگ لگانے اور فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کے اندر اور باہر افراتفری پھیلانے کے الزام میں مقدمات درج کیے تھے۔ مقدمات میں اسد عمر، اسد قیصر، حماد اظہر، علی امین گنڈا پور، علی نواز اعوان، مراد سعید، شبلی فراز، حسان نیازی، عمر ایوب خان، امجد نیازی، راجہ خرم نواز، جمشید مغل، عامر محمود کیانی، فرخ حبیب سمیت درجنوں کارکنوں کو نامزد کیا گیا تھا۔
بعد ازاں بیس مارچ سے پولیس نے جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں کریک ڈائون شروع کیا تھا۔ اس کریک ڈائون کے دوران سینیٹر شبلی فراز، سابق ایم این ایز علی نواز اعوان اور راجہ خرم نواز کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی رہنما پولیس کے ہاتھ نہیں لگ سکا تھا۔ تاہم ڈھائی سو سے زائد کارکنوں کو پولیس نے گرفتار کرلیا تھا۔ ان میں سے اکثریت ضمانت پر اب رہا ہو چکی ہے۔ جبکہ متعدد رہنمائوں نے ضمانت قبل از گرفتاری بھی کرا رکھی ہے۔ تاہم اس کریک ڈائون اور خاص طور پر حسان نیازی اور علی امین گنڈا پور کی گرفتاری نے جڑواں شہروں سے تعلق رکھنے والی پی ٹی آئی قیادت کے خوف میں اضافہ کردیا ہے۔
اسلام آباد کے سیکٹر جی ایٹ میں واقع تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹریٹ میں موجود ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان حالات میں پچھلے دو سے ڈھائی ہفتے سے دونوں شہروں سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے عہدیداران اور رہنمائوں کی اکثریت نے مرکزی دفتر کا رخ کرنا چھوڑ رکھا ہے۔ مرکزی سیکریٹریٹ کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا ’’سب غائب ہیں۔ سارے چھپے ہوئے ہیں۔ پولیس اگرچہ پہلے کی طرح کا کریک ڈائون نہیں کر رہی۔ لیکن خوف قائم رکھنے کے لئے جڑواں شہروں کی پولیس نے یہ حکمت عملی اپنا رکھی ہے کہ وہ پارٹی عہدیداران اور رہنمائوں کے گھروں کا ہفتے میں ایک دو بار چکر لگالیتی ہے۔
پولیس رات کو گھروں پر جاکر دستک دیتی ہے اور مطلوبہ عہدیدار یا رہنما کا معلوم کرتی ہے۔ جواب ملتا ہے کہ گھر پر نہیں ہیں۔ پولیس واپس چلی جاتی ہے۔ تاہم پولیس کی ان ’’آنی جانیوں‘‘ سے خوف اس قدر بیٹھ چکا ہے کہ بیشتر عہدیداران و رہنمائوں نے پارٹی کے مرکزی دفتر تو اپنی حاضری برائے نام کر ہی دی ہے۔ گھروں پر بھی نہیں سو رہے۔ حتیٰ کہ کال بھی کرنی ہو تو خوف کا یہ عالم ہے کہ کسی دوست یا عزیز کا موبائل فون استعمال کرتے ہیں کہ مبادا ٹریس نہ ہوجائیں۔ کچھ اپنے قریبی رشتہ داروں کے ہاں راتیں گزار رہے ہیں اور کئی دوستوں کے گھروں پر چلے جاتے ہیں‘‘۔
سینٹرل سیکریٹریٹ کے ذرائع نے بتایا کہ پہلے عامر محمود کیانی، علی نواز اعوان، سیف اللہ نیازی اور نعیم خان سمیت دیگر پارٹی عہدیداران اور رہنما تقریباً روز یا ایک دو روز چھوڑ کر مرکزی دفتر کا چکر لگالیا کرتے تھے۔ اب شاذونادر ہی چکر لگاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم ہونے کی خوشی میں پارٹی چیئرمین عمران خان نے یوم تشکر منانے کا اعلان کیا تھا تو پانچ اپریل کو اسلام آباد کے مرکزی دفتر میں بھی یوم تشکر منایا گیا تھا اور شکرانے کے نوافل ادا کئے گئے تھے۔
اس موقع پر بھی جڑواں شہروں سے تعلق رکھنے والے عہدیداران اور رہنمائوں میں سے بہت کم دفتر آئے تھے۔ چونکہ یہ پارٹی چیئرمین کا حکم تھا۔ لہٰذا مجبوراً اور نمبر بڑھانے کے لئے سابق ایم این اے علی نواز اعوان بھی، جو اسلام آباد میں پارٹی کے ریجنل صدر ہیں، دفتر پہنچے تھے۔ کئی روز کے وقفے کے بعد ان کی مرکزی دفتر آمد ہوئی تھی۔ تاہم زیادہ وقت نہیں گزارا اور واپس چلے گئے۔ ذرائع کے مطابق عامر محمود کیانی اور سیف اللہ نیازی تو کافی دنوں سے غائب ہیں۔ سیف اللہ نیازی ابھی اپنی پہلی گرفتاری کے اثرات سے ہی باہر نہیں نکل سکے ہیں اور وہدوبارہ پولیس کے ہتھے چڑھنے سے سخت خوفزدہ ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس ستمبر کے وسط میں ایف آئی اے نے پہلے پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ نیازی کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔ اور ان کا لیپ ٹاپ اور موبائل فون قبضے میں لے لیا گیا تھا۔ بعد ازاں اکتوبر میں انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ سیف اللہ نیازی کو ممنوعہ فنڈنگ کیس کے سلسلے میں دھرا گیا تھا۔ سیف اللہ نیازی پر ’’نامنظور ویب سائٹ‘‘ چلانے کا الزام تھا۔ ایف آئی اے کے بقول یہ ویب سائٹ غیر قانونی فنڈریزنگ کے لئے استعمال کی جاتی تھی۔ پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں کے بقول چیئرمین عمران خان کے بعد سیف اللہ نیازی پارٹی میں وہ شخصیت ہیں۔ جن کے پاس پی ٹی آئی کے بالخصوص مالی معاملات کے بارے میں سب سے زیادہ معلومات ہیں۔
اسلام آباد اور راولپنڈی سے دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے متعدد ایم پی ایز منتخب ہوئے تھے۔ ان میں جاوید کوثر، چوہدری ساجد محمود، چوہدری محمد عدنان، واثق قیوم عباسی، امجد محمود چوہدری، بشارت راجہ، عمر تنویر، راجہ رشید حفیظ، فیاض الحسن چوہان، اعجاز خان، عمار صدیق خان اور ملک تیمورمسعود شامل ہیں۔ جبکہ ارکان قومی اسمبلی میں صداقت علی عباسی، غلام سرور خان، عامر محمود کیانی ، منصور حیات خان، راجہ خرم نواز، علی نواز اعوان اور اسد عمر شامل ہیں۔ تاہم پارٹی کے مرکزی سیکریٹریٹ میں یہ چہرے آج کل کم ہی دکھائی دے رہے ہیں۔