نواز طاہر :
پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت نے وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کے نا اہل ہوتے ہی ان سے دامن چھڑا لیا۔ پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی قیادت نے طے کیا ہے کہ سردار تنویر الیاس سے روایتی اظہار یک جہتی کرنا ہی کافی ہے۔
واضح رہے کہ ملکی سیاست میں نمایاں مقام سردار تنویر الیاس خان نے پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت کے مشیر کے حیثیت سے حاصل کی اور پھر راولا کوٹ سے ریاست آزاد جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے رکن بنے۔
بعد ازاں پاکستان تحریکِ انصاف کے نامزد اور منتخب وزیر اعظم سردار عبدالقیوم خان نیازی کے خلاف ان کی اپنی ہی جماعت نے اظہار عدمِ اعتماد کردیا اور انہیں استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ اس کے بعد سردار تنویر الیاس خان کو گذشتہ سال اٹھارہ اپریل کو آزاد کشمیر کا وزیر اعظم منتخب کیا گیا۔ لیکن وہ ایک سال کی مدت پوری ہونے سے ایک ہفتہ پہلے ہی عدالت عالیہ کے ایک فیصلے کے تحت نا اہل قراردیے گئے اور وزارتِ اعظمیٰ کے ساتھ ساتھ اپنی نشست بھی کھو بیٹھے۔
پی ٹی آئی کی قیادت نے جو کرسی بڑی محنت سے انہیں دلائی تھی، اب وہی کرسی اپنے دوسرے قانون ساز رکن اسمبلی خواجہ فاروق احمد کے حوالے کردی ہے جو نئے آزاد کشمیر کے نئے وزیراعظم کے انتخاب تک اس پر براجمان رہیں گے۔ ان کے مستقل وزیر اعظم بننے کیلئے انتخابی نامزدگی کے بارے میں پی ٹی آئی کی قیادت تا حال کوئی واضح موقف دینے سے گریزاں ہے۔
جبکہ سردار تنویر الیاس خان اپنے نشست بچانے کیلیے اور نااہلی کا فیصلہ معطل کروانے یا کالعدم کروانے میں تاحال ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے جمعرات کو یہ معاملہ اپنی قیادت کے سامنے بھی رکھا تھا۔ لیکن ذرائع بتاتے ہیں کہ انہیں وہاں سے تسلی بخش جواب نہیں مل سکا اور گزشتہ رات کو انہوں نے شاہراہِ قائد اعظم کے فائیو اسٹار ہوٹل میں ساتھیوںسے صلاح مشورہ بھی کیا، جس میں عدالت سے ریلیف کے امکانات پر غور کیا گیا۔
ذ رائع کے مطابق گفت و شنید کے دوران سردار تنویر الیاس کو محسوس ہوگیا تھا کہ وہ تنہا ہوچکے اور پھر وہ ساتھیوں سے الگ ایک کمرے میں چلے گئے اور سحری بھی اپنے کمرے میں ہی کی۔ بعض صحافیوں نے ان سے ملاقات کی کوشش کی تو انہیں آگاہ کیا گیا کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں صبح گیارہ بجے پیش ہونے کیلئے کچھ ہی دیر بعد مظفر آباد کا سفر کرنا ہے۔ جبکہ آزاد کشمیر کی سپریم کورٹ نے انہیں عدالتِ عالیہ کی طرف سے سوموٹو اختیار کے تحت نوٹس لے کر سزا سناتے ہوئے نا اہل قراردینے کے فیصلے کو معطل کرنے سے انکار کردیا۔
سردار تنویر الیاس کو عدلیہ کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کرنے پر نا اہل قراردیا گیا ہے۔ لیکن ان کے قریبی حلقے آف دی ریکارڈ گفتگو میں بتاتے ہیں کہ سردار تنویر الیاس کو وزارتِ عظمیٰ جانے کا جس قدر دکھ ہے، اسی قدر اس بات پر بھی مصر ہیں کہ انہوں نے جو باتیں کیں، وہ ریاست کے نظام کے مطابق درست تھیں۔ سردار تنویر الیاس کے قریبی ساتھیوں کا دعویٰ ہے کہ وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد سے انہوں نے ریاستی امور چلانے کیلئے قومی خزانے کے علاوہ اپنی جیب سے بھی بھاری اخراجات کیے۔ ان رفقا کے مطابق گاڑیوں کے فیول سے لے کر دیگر تمام اخراجات اور مختلف حلقوں میں موقع پر دی جانے والی رقوم وہ سرکاری خزانے کے بجائے اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔
مختف اوقات میں انہیں ریاستی انتظامی مشینری کی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔ اسی مذاحمت کی وجہ سے وہ ریاستی امور متاثر ہونے لگے جس کیلیے وہ ریاست میں معائنے کیلئے خود نکلتے اور ایک سے زائد بار انہوں نے اسٹور میں آلات اور ادویات موجود ہونے کے باوجود مریضوں کو فراہم نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ اسی دوران عمران خان سے ملاقاتوں کے بعد انہیں سخت لہجہ اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی۔ دوسری جانب ان کے خاندانی کھاتے سے ہونے والے اخراجات کے اعداد و شمار اربوں کے ہندسے بھی عبور کرگئے جو خاندانی اختلافات کا باعث بن گئے اور مشترکہ کھاتے میں خاندانی تقسیم تک نوبت پہنچ گئی۔
ان ذرائع کے مطابق سردار تنویر الیاس نے یہ بھی آف دی ریکارڈ بتایا تھا کہ ان کے پیش رو وزیراعظم سردار عبدالقیوم نیازی قومی خزانہ خالی کرکے گئے تھے۔ یہی نہیں بلکہ ریاستی وزیراعظم کے سیکرٹ فنڈ کا بھی صفایا کرگئے تھے۔ اور ریاستی امور چلانے کیلئے سردار تنویر الیاس نے ذاتی جیب سے اخراجات کیے۔