پیٹردی گریٹ کاسمرپیلس دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کےہاتھوں اجڑا۔سفرروس16

سجاد عباسی

ہرمٹیج میوزیم میں موجود روسی تاریخ کے نوادرات اور عجائبات کی اہمیت اپنی جگہ، مگر پیٹر دی گریٹ کے سرمائی محل کا سحر ان سب پر حاوی تھا جہاں ہر چیز نگینے کی طرح اپنی جگہ چمک رہی تھی۔ حسن تناسب بے مثال، شان و شوکت اور دلکشی مبہوت کن اور تاریخ کے اوراق کی حسن ترتیب متاثر کن تھی۔ کمپلیکس میں شامل دیگر عمارتوں کا حسن بھی اپنی جگہ لاجواب تھا۔ فن تعمیر کی مہارت، دیواروں، چھتوں اور محرابوں پر کندہ کاری، اندرونی حصے میں آرائشی نقش و نگار، رنگوں کی جادوگری… کس کس شے کی تعریف کی جائے۔ مگر یہ سب سوچتے ہوئے ایک سوال ہمارے ذہن میں بار بار آ رہا تھا کہ اگر یہ سرمائی محل ہے تو بادشاہ سلامت کا گرمائی مسکن بھی تو ہوگا جہاں کی خلوتوں اور جلوتوں کی اپنی الگ تاریخ ہوگی۔ ہم نے میزبانوں سے ذکر کیا تو بتایا گیا کہ سمر پیلس یا (PETER HOF) کو دیکھے بغیر تو سینٹ پیٹرزبرگ کی سیر نا مکمل ہے۔ لیکن چونکہ وقت کافی ہو چکا ہے اور وہاں دوپہر دو بجے کے بعد داخلہ ٹکٹ نہیں ملتا۔ لہٰذا یہ کل ہی ممکن ہو پائے گا۔

یہ یوں بھی مناسب فیصلہ تھا کہ ہم فی الوقت اس سحر سے نکلنا نہیں چاہتے تھے۔ ہرمٹیج میوزیم میں داخلے کے وقت تو ہم سب گروپ کی صورت میں آئے تھے، مگر اندر جا کر ہر کسی کو اکیلے یا ہم خیال افراد کے ساتھ روسی تاریخ کے اوراق پلٹنے یا حسب منشا اپنے پسندیدہ حصے میں وقت گزارنے او رعلم کشید کرنے کی آزادی تھی۔ البتہ واپسی کیلئے مقررہ وقت پر سب کو مرکزی راہداری کے قریب ایک جگہ جمع ہونے کیلئے آدھا گھنٹہ دیا گیا تھا۔ ہم اندر تو دو دیگر ارکان کے ساتھ گروپ کی صورت میں ہی گئے تھے، مگر کچھ دیر بعد روسی تاریخ کی بھول بھلیوں میں کھو گئے اور جب ہوش آیا تو خود کو اکیلا پایا۔ چنانچہ واپسی کی فکر اس لئے بھی زیادہ تھی کہ راہداریوں کا ایک لا متناہی سلسلہ تھا جہاں ہرطرف بکھرے طلسمِ ہوشربا سے بچتے بچاتے باہر نکلنا تھا۔ ہم طے شدہ وقت پر باہر تو آ گئے مگر خود کو راہداری کے بجائے مرکزی شاہراہ پر پایا جہاں وسیع و عریض رن وے نما سڑک کے بجائے رواں دواں ٹریفک سے بھری شاہراہ تھی اور اس کے سامنے دریا تھا۔

منظر تو یہ بھی بڑا دلکش تھا مگر وفد کے پاس بروقت نہ پہنچنے کی صورت میں ’’ٹرین چھوٹ جانے‘‘ کا ڈر لا حق تھا۔ ہم نے خارجی دروازے پر کھڑے سیکورٹی افسر کو اشاروں سے اپنی مشکل سے آگاہ کرنے کی کوشش کی مگر اس کے پلے کچھ نہیں پڑا۔ چنانچہ اس نے عملے کے ایک ’’انگریزی دان‘‘ ساتھی کی مدد حاصل کی جو فرنگی زبان کے دو تین جملے بولنے کی قدرت رکھتا تھا۔ اس نے لال بجھکڑ کی طرح ہمارا مسئلہ سمجھتے ہوئے بتایا کہ آپ اس ٹکٹ پر دوبارہ اندر تو نہیں جا سکتے، چاہے منزل راہداری ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ سڑک سے کوئی نصف کلومیٹر آگے جا کر بائیں جانب پیدل چلتے اور دو تین راستوں سے مڑتے ہوئے کوئی دس منٹ میں آپ مرکزی گیٹ کے باہر اس مقا م پر پہنچ سکتے ہیں جہاں سے میوزیم میں داخل ہوئے تھے۔ مگر یہ کوشش کچھ زیادہ کامیاب نہ ہوئی کہ دو عمارتوں کے بعد ہم نے خود کو اسٹالز کی ایک قطار کے درمیان پایا جہاں زیادہ تر خواتین روایتی روسی اشیا بیچنے میں مصروف تھیں۔ اچانک ایک خیال ذہن میں آنے پر ہم ایک آذربائیجانی خاتون کے اسٹال پر گئے جس نے پہلی ہی نظر میں ہمیں بطور پاکستانی شناخت کرلیا اور گرم جوشی سے استقبال کیا ۔ ہم نے جذبہ خیر سگالی کے تحت مذکورہ خاتون سے دو تین کم قیمت اشیا بھی خرید لیں جن کی جیب اجازت دے رہی تھی۔ پھر اصل مدّعا بیان کرنے کیلئے اپنے موبائل میں محفوظ مرکزی عمارت کے سامنے کے حصے کی تصویر دکھا کر بتایا کہ ہمیں یہاں جانا ہے۔ خاتون نے اشاروں ہی سے سہی ،مگر تسلی بخش انداز میں ہمیں سمجھایا اور اگلے پانچ منٹ میں ہم وفد سے جا ملے۔

اگلے روز کوئی گیارہ بجے صبح ہمیں کوسٹر نے سمر پیلس یا پیٹرہاف پہنچا دیا۔ روسی بادشاہوں کیلئے مخصوص یہ گرمائی محل 1710ء سے 1714ء کے درمیان تعمیر کیا گیا اور اس کی شان و شوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ گاڑی سے اترنے کے بعد وسیع و عریض شاداب باغیچے اور نفاست سے کٹے نایاب پودوں، فواروں اور سبزہ زاروں سے گزرتے کوئی نصف کلومیٹر کے پیدل اور سحر انگیز سفر کے بعد ہم محل کے قریب پہنچے تو ہماری طرح وفد میں شامل تمام لوگ ہی اس پر شکوہ اور دلکش عمارت کو اپنے اپنے موبائل کیمرے میں قید کرنے لگے، مگر اس دوران بتایا گیا کہ کچھ بے چینی سنبھال رکھی جائے کہ یہ تو محل کا عقبی حصہ ہے۔ یعنی "وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے۔” ابھی ہمیں ٹکٹ لینا اور راہداری سے گزر کرمحل کے سامنے والے حصے میں جانا تھا۔ محل کا عقبی حصہ دیکھ کر ہمیں اپنے بہاولپور کے عباسی نوابوں کا نور محل یاد آ گیا جو اپنے وقت کے لحاظ سے فن تعمیر کا شاہکار ہے اور جس کی تعمیر میں استعمال ہونے والا زیادہ تر میٹریل اور آرائشی اشیا یورپ سے درآمد کی گئی تھیں۔ بلاشبہ نور محل بھی تعمیراتی حسن کا شاہکار ہے۔ مگر پیٹر ہاف نے تو مغل بادشاہوں کی رہائش آرائش اور آسائش کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا۔سینٹ پیٹرزبرگ کی شان، سمر پیلس کا رقبہ ایک ہزار ایکڑ ہے۔ ڈیڑھ سو سے زائد چھوٹے بڑے مجسمے اور 100 سے زائد فوارے اس کی زیبائش میں چار چاند لگاتے ہیں۔ اس کا تقابلی جائزہ صرف فرانس کے ورسائی محل سے کیا جاسکتا ہے۔

سمر پیلس یا پیٹر ہاف کو گرینڈ پیلس بھی کہا جاتا ہے، یہ دریائے نیوا کے کنارے واقع ہے۔ اس کا مقام ایک جزیرے کی صورت اختیار کرگیا ہے، جو تین بڑی نہروں فون ٹیکا، موئے کا اور سوان کینال کے ملاپ سے وجود میں آیا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 1714ء میں محل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پیٹر دی گریٹ اور اس کی دوسری اہلیہ ملکہ کیتھرائین اول نے اپنے بارہ بچوں کے ساتھ یہاں رہائش اختیار کی۔ ان دونوں کی سفر آخرت پر روانگی کے بعد بھی یہ محل طویل عرصے تک زار شاہی خاندان کے استعمال میں رہا۔ 1934ء میں اسے میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا۔ جنگ عظیم دوم کے دوران جرمن نازی افواج نے سمر پیلس اور سمر گارڈن کو تہس نہس کردیا۔ پھر 1960 ء میں اس کی تعمیر نو کی گئی اور اب سیاح اسے ایک بار پھر تین سو برس پہلے کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ پیٹر ہاف کے دامن میں آرٹ اور رنگوں کا ایک جہاں آباد ہے۔ ایک خاص ترتیب سے لگے دو رویہ درخت، سبزے کے دلفریب قطعات، چادروں کی مانند بچھے ٹیولپ کے پھول، سماعتوں اور بصارتوں میں ٹھنڈک اور نغمگی اتارتے فوارے، ان میں ایستادہ مجسمیے جن کے دہانوں سے اگلتی شفاف پانی کی موتیوں جیسی پھوار… گویا آپ کو ایک الف لیلوی جہاں میں داخل کر دیتی ہے۔ جس سے باہر آنا آسان ہے نہ اس سے نکلنے کومن کرتا ہے۔

یہ زار بھی عجیب لوگ تھے،کہ جنہوں نے  اپنے اور خاندانوں کیلئے اک الگ ہی دنیا آباد کر رکھی تھی۔ سرمائی محل سے جی بھر گیا تو فن لینڈ کے ساحلوں پر رنگ و نور کا ایک اور جہاں آبادکردیا۔ محلوں کے دامن کو خوشبو لٹاتے باغیچوں اور موتی اگلتے فواروں سے سجا دیا۔ ہم اس دلربا منظر کے فسوں میں جانے کتنی ہی دیر کھوئے رہے کہ وقت کا دھیان ہی نہ رہا اور شام کے نرم اور سرد سائے نے محل کے درودیوار کو اپنے دامن میں لے لیا۔ بتایا گیا کہ واپسی دریائے نیوا کے ساحل سے بذریعہ شپ ہوگی۔ جہاں پہنچنے کیلئے باغیچوں اور فواروں کے بیچ ہی سے گزر کر جانے کا سفر ایسا سحر انگیز تھا کہ دل چاہتا تھا ختم ہی نہ ہو۔ کوئی نصف گھنٹے کے ’’بحری‘‘ سفر کے بعد ہم دریائے نیوا کے کنارے اس مقام پر پہنچے جہاں جلتر نگ بکھیرتے دریا پر نصف شپ کے بعد رنگوں، روشنیوں، موسیقی اور پانی کے ملاپ سے کہکشاں سجاتی ایک ایسی انوکھی تقریب منعقد کی جاتی ہے جو روسی باشندوں کیلئے تو معمول کی بات ہے مگر باہرسے آنے والوں کیلئے اک فسوں کا درجہ رکھتی ہے۔ (جاری ہے)