اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پاکستان 1971 میں اچانک نہیں ٹوٹا تھا، جسٹس منیر نے زہریلا بیج بویا تھا جو پروان چڑھا اور ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔
اسلام آباد میں سینئر جج سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ‘آئین پاکستان، قومی وحدت کی علامت’ کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس سال ہم آئین پاکستان کی 50 ویں سالگری منا رہے ہیں، 10 اپریل 1973 کو مشترکہ طور پر آئین پاکستان کو اپنایا گیا۔ آئین پاکستان پارلیمان ہی نہیں تمام پاکستانی شہریوں کیلئے اہم ہے۔ آئین پاکستان میں عام لوگوں کے حقوق ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل قائداعظمؒ برصغیر میں ہر جگہ گئے اور بھرپور جدوجہد کے بعد پاکستان قائم ہوا۔ اس طرح دنیا کے نقشے پر پہلی بار مسلم ریاست وجود میں آئی۔
انہوں نے کہا کہ 1971 میں پاکستان اچانک نہیں ٹوٹا تھا، ملک توڑنے کا بیج فیڈرل کورٹ میں جسٹس منیر نے بویا، وہ زہریلا بیج پروان چڑھا اور ملک کے دسمبر 1971 میں دو ٹکڑے کر دیے گئے۔ اس کے بعد عبوری آئین 1972 میں بنایا گیا، 1971 میں قوم کا سر جھکا ہوا تھا، قوم شرمندہ تھی۔ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ جھوٹ ، بد اخلاقی کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔ آئین کو اس طرح پیش نہیں کیا جاتا جس کا وہ مستحق ہے۔
جسٹس قا ضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد آئین پاکستان کا کام ادھورا رہ گیا تھا، آزادی حاصل کرنے کے بعد سب سے زیادہ ضرورت آئین کی تھی۔ 1977 کے انتخابات پر دھاندلی کے الزامات کے باوجود فریقین مذاکرات کیلیے بیٹھے۔ پی این اے اور ذوالفقار علی بھٹو کا اختلافات کے باوجود مذاکرات کرنا خوش آئند تھا۔ ہم آج جو بھی کام کرتے ہیں، اس کے اثرات صدیوں بعد بھی ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے 1977 میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ 90 کی دہائی میں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کی جمہوری حکومتوں کو برطرف کیا گیا۔ کوئی بھی نا انصافی زیادہ دیر نہیں رہ سکتی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آمروں نے خود کو تحفظ دینے کیلیے آئین میں ترامیم کیں، تاریخ پکار رہی ہے کہ کچھ سیکھا جائے، نہیں سیکھیں گے تو یہ خود کو دہرائے گی۔ ازخود نوٹس کسی کو فائدہ دینے کیلیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، اگر کوئی فیصلہ غلط ہے تو وہ غلط ہی رہے گا، چاہے سب جج فیصلہ کر لیں۔ سوموٹو کا لفظ آئین میں نہیں ہے۔ آئین میں 184 تین کو سوموٹو کہا جاتا ہے، اس شق کا پاکستان میں بھرپور استعمال کیا گیا۔ پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط فیصلہ تھا۔