اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ازخود نوٹس کسی کو فائدہ دینے کیلیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، اگر کوئی فیصلہ غلط ہے تو وہ غلط ہی رہے گا، سوموٹو کا لفظ آئین میں نہیں ۔ آئین میں 184 تین کو سوموٹو کہا جاتا ہے، اس شق کا پاکستان میں بھرپور استعمال کیا گیا۔
اسلام آباد میں سینئر جج سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ‘آئین پاکستان، قومی وحدت کی علامت’ کے عنوان سے منعقدہ تقریب میں سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ازخود نوٹس کا اختیار صرف سپریم کورٹ کو ہے، 184 تین کے تحت سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ بن جاتی ہے۔ جب سے سپریم کورٹ کا جج بنا کبھی اپنی پسند اور ناپسند کا اظہار نہیں کیا۔ پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط فیصلہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ ازخود نوٹس کے استعمال سے متعلق قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہیے، شق 184 تین صرف مظلوموں کیلئے ہے، کسی کو فائدہ دینے کیلیے نہیں۔ اس شق کے تحت چیف جسٹس سمیت تمام ججز کو مشترکہ فیصلہ کرنا چاہیے۔ نمبر گیم سے سچ جھوٹ اور جھوٹ سچ میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہاکہ ہرعدالت سے مختلف آراء سامنے آتی ہیں، سب کی رائے کا احترام کرنا چاہئے۔ سارے اختیارات ہمارے پاس نہیں، دوسرے ادارے بھی ہیں۔ الیکشن کمیشن بھی ہے، وہ الگ ادارہ ہے۔ عہدے پر بیٹھے ہوں تو آپ میں انا نہیں ہونی چاہیے، مجھ میں انا آ گئی تو جج نہیں رہوں گا، میں کسی آئینی ادارے میں مداخلت نہیں کروں گا۔