اسلام آباد(امت نیوز) ڈیجیٹلائزیشن ہی مستقبل ہے اور اسے بجلی کی ترسیل کے بنیادی ڈھانچےمیں موجودخامیوں کو دور کرنے کے لیے اختیارکیا جانا چاہئے تاکہ بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے نظام میں جدت لائی جائے اور بجلی کی چوری کو روکنے کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ صارفین کے لیے سہولیات کو بہتر بنایا جا سکے۔
ان خیالات کا اظہارپاکستان میں بجلی کے شعبے کے مسائل کے حل کے لیے سرمایہ کاری اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال کے موضوع پراس شعبے کے ماہرین نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں منعقد ہونے والے ایک ہائبرڈ سیمینار کے دوران کیا۔
سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی اشفاق محمود کی زیرِ صدارت ہونے والےاس اجلاس سے خالد رحمان، چیئرمین آئی پی ایس؛ مرزا حامد حسن ،چیئرمین آئی پی ایس سٹیئرنگ کمیٹی برائے توانائی، پانی اور موسمیاتی تبدیلی اور سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی ، مظہر اقبال رانجھا، رجسٹرار، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) سعدیہ دادا، سی ایم سی او، کے الیکٹرک صلاح الدین رفائی، سابق جی ایم ،این ٹی ڈی سی اور آئی پی ایس سے وابستہ توانائی کے شعبے کے ماہرین اسد محمود، احمد عمار یاسر، اور امینہ سہیل نے بھی خطاب کیا۔
خالد رحمان نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ پاکستان مِیں توانائی کےشعبے کے مسائل انتہائی پیچیدہ ہیں اور ان کے حل کے لیےغیر معمولی سوچ بچاراور اقدامات درکار ہیں۔سعدیہ دادا نے کہا کہ توانائی کے شعبے کو بجلی کی دستیابی، رسائی اوراسے قابل استطاعت رکھنے کے تین عوامل پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے لیےتوانائی کی صنعت کو نئے حل اور اہداف پر مبنی سرمایہ کاری کو یقینی بنانا ہو گا۔کے الیکٹرک (کے ای) کی جانب سے شروع کیے گئے پاور سسٹم کی ماڈلنگ پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نجکاری کے بعد سے کمپنی نے اپنی ویلیو چین میں 474 بلین روپے کی ٹارگیٹڈ سرمایہ کاری کی ہے جو کہ اس کے منافع سے چھ گنا زیادہ ہے۔ اپنے کسٹمر بیس کو 1.8 ملین سے 3.4 ملین تک دگنا کرنا، توانائی کی سپلائی کو 2,200 میگاواٹ سے بڑھا کر 3,380 میگاواٹ تک لے جانا اور اس کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن (T&D) نقصانات کو 34.2 فیصد سے کم کر کے 15.3 فیصد تک لے آنا ایک بڑی کامیابی ہے جو نیپرا کے سال کے لیے مقرر کردہ ہدف سے بھی کم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے کے الیکٹرک اگلے سات سالوں کے لیے 484 ارب روپے کی اضافی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جس سے اس کی پیداواری صلاحیت میں 2,172 میگاواٹ کا اضافہ ہو گا جس میں 1,182 میگاواٹ قابل تجدید ذرائع شامل ہیں۔ اپنے سرمایہ کاری منصوبے 2030 کے ذریعے، کے ای کا مقصد اپنے ڈسٹری بیوشن سیگمنٹ میں مزید جدتیں متعارف کروانا ہے، مثلاً ایڈوانسڈ ڈسٹری بیوشن مینجمنٹ سسٹم، موبائل ورک فورس مینجمنٹ، جیوگرافیکل انفارمیشن سسٹمز (جی آئی ایس)اور ایڈوانس اینالیٹکس اینڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس، جو کہ مسائل کے تیز ترین حل، کم سے کم رکاوٹوں اور بہتر صلاحیتوں کے ساتھ صارفین کےلیےایک اچھا تجربہ ثابت ہو گا ۔
اس موقع پرصلاح الدین رفائی نے کہا کہ ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹلائزیشن کے تصور کو پاور سیکٹر نے اکثر غلط طریقے سے نمٹا ہے۔ نتیجتاً، ہر طرح کے اخراجات صارفین برداشت کرتے ہیں، جس سے استطاعت کا ہدف بے کار ہو جاتا ہے۔ انہوں نے صارفین کے مفادپر مبنی اصلاحات پر زور دیا۔مظہر رانجھا نے کہا کہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ پاور سیکیورٹی قائم کرنے کے لیے، ایک بہتر انداز کے ساتھ منظم طریقہ کاراختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ قابل عمل حل نکالنے کے لیے مختلف پہلوؤں پر کیس اسٹڈیز، بشمول ٹیرف انڈیکسیشن، سرمایہ کاری، منصوبہ بندی، ڈیجیٹل تبدیلی، وغیرہ جیسے عوامل پر کام کرنا ہوگا۔مرزا حامد نے کہا کہ صارفین پر بوجھ کی ایک بڑی وجہ بجلی کا فرسودہ اور ناقص ٹرانسمیشن سسٹم ہے۔ اس لیے بجلی کی منتقلی اور ڈیجیٹلائزیشن کے ساتھ ساتھ، بجلی کی ترسیل کی استعداد میں اضافے کو سرمایہ کاری کا ترجیحی درجہ دیا جانا چاہیے۔
احمد عمار یاسر نے پاکستان کے لیے مستقبل کی پاور پلاننگ کی اہمیت کے پیش نظرٹیکنالوجی اور جدید آلات کے ساتھ ساتھ پاور پالیسی کو متحرک کرنے کے لیے سرمایہ کاری پر زور دیا۔انہوں نے مزید کہا کہ نظام میں منصوبہ بندی کی صلاحیت کے لیے بنیادی ڈھانچے کےمسائل اور خامیوں کو دور کرنا انتہائی اہم ہے جس کے لیے ان امور میں انتظامی اصلاحات کو ترجیح دینی چاہیے۔
اسد محمود نے زور دیا کہ ڈیجیٹلائزیشن ہی مستقبل ہے، اور اگر اس پر عمل درآمد کیا جائے تو یہ پاکستان کے پاور سیکٹر کے عدم تحفظ کو دور کر سکتا ہے۔ امینہ سہیل نے کہا کہ اس کےساتھ ساتھ،ان امور کو مقامی ضرورت کے مطابق حل کرنے اور درست فیصلہ سازی پر بھی زیادہ توجہ دی جانی چاہیے، کیونکہ یہ نہ صرف نظام کے چیلنجز بلکہ ملکیت کے مسائل کو بھی حل کریں گے۔
اپنے اختتامی کلمات میں، اشفاق محمود نے زور دیا کہ بجلی پرسرمایہ کاری، پالیسی کی منصوبہ بندی، اور ڈیجیٹلائزیشن کا رخ ترسیل کے نظام کی طرف ہونا چاہیے نہ کہ پیداوار کی طرف، تاکہ گردشی قرضوں کو بجلی کی صارفین تک رسائی کو یقینی بنا کر آمدنی میں اضافے کے زریعے ختم کیا جائے۔ مزید یہ کہ مسائل پر قابو پانے کے لیے مالیاتی منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کی حکمت عملی بنائی جانی چاہیے۔