اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)کیا وزیر اعظم شہباز شریف آج توہین عدالت کے کیس میں وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو سکتے ہیں یا ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز ہو سکتا ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جو گزشتہ 24 گھنٹے سے وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور صحافتی حلقوں کے علاوہ عوامی حلقوں میں بھی زیربحث ہے۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال معمول کے مقدمات کو ڈی لسٹ کر کے آج بروز جمعرات صبح ساڑھے گیارہ بجے چودہ مئی کوپنجاب میں الیکشن نہ کرانے کے حکومتی فیصلے کیخلاف کیس کی سماعت کریں گے ۔پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت اور پارلیمنٹ بارہا یہ اعلان کر چکی ہے کہ عدالت کی مقرر کردہ تاریخ پر انتخابات نہیں ہو سکتے اور یہ کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ایک ہی تاریخ پر ستمبر کے بعد حکومتی مدت پوری ہونے پر ہوں گے۔اس بات کا اعادہ گزشتہ روز ایک بار پھر کیا گیا اور معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا گیا۔عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ نے حکومت کی جانب سے الیکشن فنڈز جاری نہ ہونے پر براہ راست اسٹیٹ بینک کو ایسا کرنے کا حکم دیا تھا تاہم اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا اور معاملہ پارلیمنٹ کے حوالے کر دیا گیا جس نے حکومتی موقف کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس طرح حکومت نے اپنے گرد پارلیمنٹ کا حصار قائم کر لیا اور الیکشن فوری نہ کرانے کے فیصلے پر ڈٹ گئی جبکہ دوسری جانب عدالت نے بھی اس معاملے میں لچک نہ دکھاتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ 14مئی کو الیکشن کرانے کے فیصلے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ البتہ اگر سیاسی اسٹیک ہولڈر باہمی مذاکرات کے ذریعے کسی حل پر پہنچتے ہیں تو فیصلہ تبدیل کیا جا سکتا ہے تاہم اس حوالے سے بھی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ سکی اور اب 27 اپریل کو کیس کی سماعت کا دن آ پہنچا ہے۔قانونی ماہرین کے مطابق اگر آپشنز کی بات کی جائے تو عدالت وزیراعظم کو توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کر سکتی ہے اور انتخابی فنڈز کے اجراء کے لئے ایک دو روز کی مہلت بھی مل سکتی ہے جس پر عمل در آمد کا امکان بظاہر نظر نہیں آتا۔اس طرح عدالت کے پاس دو ہی آپشن بچتے ہیں ۔یا تو فیصلے پر عمل درآمد کرایا جائے یا پھر وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو تو ہین عدالت کی کاروائی کے تحت فارغ کردیا جائے۔تیسرا آپشن لارجر یا فل بینچ کی تشکیل کا ہے جس پر عدالت اب تک آمادہ نہیں ہوئی اور مستقبل قریب میں بھی اس کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔سیاسی مبصرین کے مطابق وزیر اعظم اور ان کی کابینہ پر نااہلی کی تلوار لٹک گئی ہے اور شہباز شریف کے خلاف یوسف رضا گیلانی طرز کی کارروائی ہو سکتی ہے۔ایسی صورت میں حکومت کے پاس محدود آپشنز ہی رہ گئے ہیں اور ان میں سے نمایاں ترین آپشن تصادم کا ہے جسے پارلیمنٹ کے ذریعے آزمایا جا رہا ہے۔ذرائع کے مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ نون شہباز شریف کی ممکنہ نااہلی کو گھاٹے کا سودا نہیں سمجھتی، ایسی صورت میں وہ سیاسی شہادت کا علم بلند کرکے انتخابی مہم میں کود سکتی ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق پارلیمنٹ میں گزشتہ روز کی جارحانہ تقاریر اتحادیوں کی اسی پالیسی کی عکاسی کرتی ہیں، ان میں سے سخت ترین خطاب وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا تھا جن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی توہین ہم سب کی توہین کے مترادف ہے جسے کسی طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔مبصرین کے مطابق دلچسپ بات یہ ہےکہ آئندہ کے سیاسی منظر نامے میں بلاول بھٹو کو وزارت عظمی کے مضبوط ترین امیدوار کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔