کراچی (اسٹاف رپورٹر)جائیداد کی لین دین کے تنازعے پر ماموؤں نے کمسن بھانجی کو سرجانی سے اغوا کے بعد لاہور میں مبینہ طور پرقتل کرکے لاش دفنا دی۔
28 مارچ کو سرجانی ٹاون میں گھر سے آٹھ سالہ فریدہ اغوا کیا گیا اور عید الفطر کے روز قتل کر کے لاہور میں دفنا دیا گیا۔ سرجانی ٹاؤن انویسٹی گیشن پولیس اس سے لاعلم نظرآئی۔ بختاور بی بی نے آٹھ سالہ فریدہ کے اغوا کا مقدمہ سرجانی ٹاؤن تھانے میں اپنے بھائیوں اور کزن کے خلاف درج کرایا تھا۔
پولیس ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود معصوم فریدہ کو بازیاب نہیں کراسکی۔ سرجانی ٹاؤن انویسٹی گیشن پولیس ایک ماہ تک مسلسل ٹال مٹول سے کام لیتی رہی اور بچی کے اہل خانہ پر صلح کرنے کے لیے دباؤ ڈالتی رہی۔
عید الفطر کا دن بختاور بی بی کو اطلاع ملی کہ ان کے لخت جگر کو لاہور میں بے دردی سے قتل کر کے دفن کر دیا گیا ہے۔ تفتیشی پولیسُ کا کہنا تھا کہ ایک ملزم اکرم کو گرفتار کیا تھا لیکن اسکی نشاندہی پر بچی بازیاب نہیں ہوسکی۔پولیس حکام نےالزام عائد کیا کہ مقدمہ مدعی اور اسکے اہلخانہ مقدمے میں نامزد ملزمان کو گرفتار کرنے اور مغویہ کو بازیاب کرانے کے بجائے جرگے کے فیصلے کے انتظار کرتے رہے۔ پولیس حکام کے مطابق ایک جائیداد فروخت ہوئی تھی اس کا حصہ 32 لاکھ روپے نامزد ملزمان بختاور سے مانگ رہے تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ بجی کو لاہور نشتر تھانے کی حدود میں ایک قبرستان میں دفنایا گیا، اس بات کی بھنک نشتر پولیس کو ہوئی تھی، انہوں نے معلومات حاصل کی تو بتایا گیا کہ بچی چھت سے کھیلتے ہوئے گر گئی تھی تاہم اس اطلاع پر بچی کا والد و رشتے دار لاہور پہنچ چکے ہیں۔
لاہور کی نشتر پولیس کو بھی مذکورہ واقعہ سے آگاہ کردیا گیا ہے ،پولیس نے متاثرہ افراد کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ قانونی طور مکمل ساتھ دینگے تاہم کراچی اور لاہور پولیس نے مزید تفتیش شروع کردی ہے۔
متاثرہ فیملی کا آبائی تعلق افغانستان کے علاقے قندوز سے ہے ، بجی کے والدعطااللہ نے یہ بتایا کہ میرے بھائی نے افغانستان کے شہر قندوز میں زمین ساڑھے چھ لاکھ روپے میں فروخت کی تھی جس میں سے میری اہلیہ کا بھائی صادق حصہ مانگ رہا تھا اور وہ مطالبہ کا رہا تھا کہ اسے بتیس لاکھ روپے دیئے جائیں جبکہ اس کا اس حوالے سے کوئی حق نہیں بنتا اور اسی چپقلش میں وہ میری بیٹی کو زبردستی اغوا کر کے لے گیا۔ انھوں نے بتایا کہ اس واقعہ پر انہوں نے جرگہ بھی بیٹھا اور جو بھی معاملہ تھا بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا تھا۔
عطااللہ نے بتایا کہ بیٹی کے اغوا کا مقدمہ 30 مارچ کو اہلیہ کی مدعیت میں سرجانی ٹاؤن تھانے میں درج کرایا گیا جس میں ایک نامزد ملزم کو گرفتار بھی کیا گیا جو مرکزی ملزم صادق کے ہمراہ آیا تھا بعد میں پتہ چلا کہ صادق اور دیگر افراد میری بیٹی کو پشاور لے گئے جس پر مقدمے کے آئی او اے ایس آئی مختار سے کہا کہ وہ ساتھ چلے اور جو بھی جانے کا خرچہ ہوگا وہ ہم دینگے لیکن وہ ٹال مٹول سے کام لیتا رہا اس دوران ملزمان کو پتہ چل گیا کہ مقدمہ درج ہوگیا تو وہ پشاور سے لاہور کے علاقے شمع کالونی میں کرایے کے گھر میں منتقل ہوگئے اور ہمیں اطلاع ملی کہ ملزم نے عید والے دن میری بیٹی کو قتل کر کے لاش دفنا بھی دی۔
عطااللہ نے بتایا کہ انھوں نے لاہور میں شمع کالونی کے مکینوں سے بھی ملاقات کی اور انھوں نے بچی کے انتقال اور اس کی تدفین کی تصدیق کی ہے۔
متعلقہ نشتر تھانے میں پولیس کو ملزمان کی گرفتاری کے لیے کہا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ کراچی پولیس پارٹی آئیگی تو مزید کارروائی کرینگے جس پر بچی کی والد نے کہا کہ بچی کا قتل تو ان کے تھانے کی حدود میں ہوا ہے اس پر تو کارروائی کرنا بنتی ہے لیکن پولیس نے کوئی تعاون نہیں کیا جبکہ کراچی میں مقدمے کے آئی او کو بھی معطل کر کے نیا آئی او مقرر کیا گیا ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ پولیس پارٹی کچھ روز میں لاہور پہنچے گی ۔