کراچی(اسٹاف رپورٹر)تحریک لبیک پاکستان کے رکن صوبائی اسمبلی قاسم فخری کا کہنا ہے کہ اہلِ کراچی کو ایک بار پھر ڈیجیٹل مردم شماری کے نام پر بے وقوف بنایا گیا اور ہر بار کی طرح اس بار پھر دھوکا دیا جارہا ہے۔ کیا کراچی کی عوام کے ساتھ یہ دھوکہ دہی ہمیشہ ہوتی رہے گی ۔ کراچی کے ووٹوں کے بعد اب عوام کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ۔ ڈیجیٹل مردم شماری کی آڑ میں شہری اور دیہی سندھ کے درمیان مستقل لکیر کھینچنے کی سازش کی جارہی ہے جو کہ ہم کبھی کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ کراچی کا حق کراچی کی عوام کو پورا پورا ملنا چاہئے ، شہری سندھ کی آبادی کو کم دکھا کر دیہی سندھ کی آبادی کو زیادہ دکھانے کا کیا مقصد ہے ہم جانتے ہیں۔ اس مرتبہ کراچی کے عوام جاگ رہے ہیں اور اس ڈیجیٹل مردم شماری کے نام پر جو دھوکا دیا جارہا ہے اور اہلِ کراچی کو بے وقوف بنایا جارہا ہے وہ ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا
انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ اس مردم شماری میں اپنے خاص لوگوں سے وہی کام لے رہی ہے جو وہ سال ہا سال سے لے رہی ہے یعنی دھوکے اور فراڈ کے ذریعے وڈیرہ شاہی نظام کو کو قائم رکھنا اور شہری سندھ کی آبادی کو کم دکھانا تاکہ زیادہ سے زیادہ نمائندے آئندہ الیکشن میں دیہی سندھ سے جتوائے جا سکیں اور اپنی مرضی کی حکومت بنائی جاسکے۔ مردم شماری کے لئے جو نقشے دئیے گئے ہیں وہ نا مکمل ہیں ۔ عملہ کو دیئے گئے علاقے کی مردم شماری کو مکمل کرنا نا ممکن ہے۔ تین کروڑ سے زیادہ افراد کے شہر کو ڈیڑھ کروڑ گننا اور مستقل پتے کو بنیاد بنا کر اور ان افراد کو نہ گننا جن افراد کے موجودہ پتے تو کراچی کے ہیں لیکن مستقل پتے پاکستان کے دوسرے شہروں کے ہیں تاکہ اپنی من مانی کے الیکشن نتائج بنائیں جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ دیہی سندھ کے مظلوم عوام سے وڈیرہ شاہی نظام کے تحت ہمیشہ ووٹوں کے ذریعے اکثریت لی جاتی ہے جس سے کراچی کی عوام کا حق مار لیا جاتا ہے، سندھ اسمبلی، قومی اسمبلی، سینیٹ میں کراچی کے نمائندوں کی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کو اس کا پورا حق ہی نہیں مل پاتا۔ مردم شماری کی وجہ سے ہی آج تک شہری سندھ اپنا وزیرِ اعلی منتخب نہیں کرپاتا اگر یہی مردم شماری درست ہو تو کراچی کی سندھ اسمبلی کی نشستیں 44 کی جگہ 70 ہوجائیں اور قومی اسمبلی کی نشستیں 21 کی جگہ 40 ہوجائیں جس کی وجہ سے سینٹ کی نشستوں میں بھی اضافہ ہو اور کراچی کو اس کا پورا پورا حق ملے۔ – یہی حال سرکاری ملازمتوں کا ہے 55 فیصد دیہی سندھ اور 45 فیصد شہری سندھ کا کوٹہ ہے جو درست مردم شماری کی وجہ سے بڑھ سکتا ہے جس سے شہری سندھ (کراچی) کو ملازمتوں کے مواقع میسر آئیں گے اور کراچی کے ہونہار اور قابل نوجوان جو احساس کمتری کا شکار ہیں ان کا حوصلہ بھی بڑھے گا، ملک و قوم کی خدمت کا موقع بھی ملے گا۔ – جب لوگ کم گنے جائیں گے تو بجٹ بھی کم مختص کیا جائے گا، ترقیاتی کام نہیں ہونگے، آبی وسائل کا مسئلہ رہے گا، اور نہ ہی نئے پروجیکٹ بنیں گے۔ – جب پورے پاکستان میں کراچی ہی سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے تو اس کے ساتھ یہ ناانصافی کیوں ہورہی ہے، کیا کراچی کے عوام صرف ٹیکس دینے کے لئے ہی رہ گئے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ کم آبادی دکھا کر کراچی کو تباہ کیا جارہا ہے کیونکہ جب آبادی کم دکھائی جائے گی تو فنڈ بھی کم ملے گا اور کراچی کو ہر طرح سے نقصان اٹھانا پڑے گا۔- محکمہ شماریات کےمطابق جو شخص 6 مہینے سے کراچی میں رہ رہا ہے یا اگلے 6 مہینے تک کراچی میں رہے گا اسے 2023 میں کراچی کی آبادی میں گنا جائے گا لیکن اس مردم شماری میں ایسا نہیں کیا گیا۔- 2017 کی مردم شماری میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو کراچی میں گنا گیا اور ان کے مستقل پتے کی بنیاد پر ان کے آبائی علاقوں میں دکھایا گیا جبکہ وہ عرصہ دراز سے کراچی میں رہائش پذیر ہیں اور ممکنہ حد تک سہولیات سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ یوں کراچی کی آبادی کم ظاہر کی گئی اور کراچی کی آبادی کو جن علاقوں میں دکھایا گیا وہاں نا صرف اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ہوا بلکہ وسائل میں ان علاقوں کا حصہ زیادہ ہو گیا۔