لاہور(اُمت نیوز) اس عزم کا اظہارپانچ عرب وزراء خارجہ اور سفارت کاروں کے عمان میں اجلاس کے بعد جاری کردہ بیان میں کیا گیا ہے۔اس اجلاس میں شام میں 12 سال سے جاری مسلح تنازع کے خاتمے کے لیے روڈمیپ پرغورکیا گیا ہے۔
شام، مصر، عراق، سعودی عرب اور اردن کے وزرائے خارجہ نے اردن کے دارالحکومت عمان میں شام میں جاری جنگ کے سیاسی تصفیے اوراس کے ساتھ تعلقات کو معمول پرلانے کے طریقوں پرتبادلہ خیال کیا ہے۔
عرب لیگ نے صدر بشارالاسد کی حکومت کے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد 2011 میں شام کی رکنیت معطل کردی تھی۔اس فیصلے کے بعد شام کی حکومت اور عرب ممالک کے کسی گروپ کے درمیان یہ پہلے مذاکرات ہیں۔
اجلاس کے بعد جاری کردہ حتمی بیان میں کہاگیا ہے کہ حکام نے لاکھوں بے گھرشامیوں کی رضاکارانہ وطن واپسی کے طریقوں اور شام کی سرحدوں کے ذریعے منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے مربوط کوششوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
بیان کے مطابق دمشق نے اردن اور عراق کی سرحدوں پر اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے ضروری اقدامات کرنے اور اگلے ماہ تک اس بات کی نشاندہی کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے کہ ان دونوں ممالک میں کون منشیات تیار اوربیرون ملک منتقل کر رہا ہے۔شامی وزیرخارجہ فیصل مقداد نے فوری طور پراس بیان پرکوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
عرب حکومتوں اور مغرب کی جانب سے شام پر یہ الزام عاید کیا جاتا ہے کہ وہ انتہائی نشہ آور اور منافع بخش ایمفیٹامائن کیپٹاگون تیار کرتا ہے اور خلیج میں اس کی اسمگلنگ کو منظم کرتا ہے۔
حالیہ مہینوں میں امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین میں شام کے اعلیٰ عہدے داروں اور بشارالاسد کے رشتہ داروں پرمنشیات کی اس تجارت پر پابندیاں عاید کی گئی ہیں۔
وزراء خارجہ کے درمیان یہ ملاقات سعودی شہر جدہ میں خلیج تعاون کونسل، مصر، اردن اور عراق کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے دو ہفتے بعد ہوئی ہے، جہاں بعض ممالک کا کہنا تھا کہ دمشق کی جانب سے امن منصوبے پر بات چیت پر رضامندی سے قبل شام کی عرب لیگ میں واپسی قبل ازوقت ہوگی۔
عرب ریاستیں اورتنازع سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک بشارالاسد کے ساتھ تعلقات کو معمول پرلانے کی رفتار پراتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں کہ آیاانھیں عرب لیگ کے سربراہ اجلاس میں مدعو کیا جائے اور کن شرائط پر شام کو واپس آنے کی اجازت دی جائے۔