اسلام آباد: سپریم کورٹ میں انتخابات ایک ساتھ کرانے کے کیس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ نظرثانی اپیل تک حکومت نے دائر نہیں کی،حکومت قانون کی بات نہیں سیاست کرنا چاہتی ہے،پہلے بھی کہا تھا کہ سیاست عدالتی کارروائی میں گھس چکی ہے،ہم سیاست کا جواب نہیں دیں گے،اللہ کے سامنے آئین کے دفاع کا حلف ہے
چیف جسٹس نے کہاکہ معاشی ، سیاسی ، معاشرتی، سیکیورٹی بحرانوں کیساتھ آئینی بحران بھی ہے،کل بھی 8 لوگ شہید ہوئے،حکومت اور اپوزیشن کو سنجیدہ ہونا ہو گا،معاملہ سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیں تو کیا قانون پر عملدرآمدنہ کرائیں،کیا عدالت عوامی مفاد سے آنکھیں چرا لے؟سپریم صرف اللہ کی ذات ہے،حکومت عدالتی احکامات پر عملدرآمد کی پابندہے،عدالت تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے لیکن اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے،قانون پر عملدرآمد کیلیے قربانیوں سے دریغ نہیں کریں گے ، قوم کے جوانوں نے قربانیاں دی ہیں تو ہم بھی قربانیاں دینے کیلیے تیار ہیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ قرضوں میں78 فیصد، سرکولر ڈیٹ میں 125 فیصد اضافہ ہو چکا ہے،سیلاب کے باعث31 ارب ڈالر کا نقصان ہوا،اسمبلی تحلیل سے پہلے بجٹ، آئی ایم ایف معاہدہ، ٹریڈ پالیسی کی منظوری لازمی ہے،لیول پلیئنگ فیلڈ اور ایک دن انتخابات پر اتفاق ہوا،اسمبلی تحلیل کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہو سکا،ملکی مفاد میں مذاکرات کا عمل بحال کرنے کو حکومت تیار ہے،ہر حال میں اسی سال ایک دن الیکشن ہونے چاہئیں،سندھ اور بلوچستان اسمبلی قبل از وقت تحلیل پر آمادہ نہیں،ہر فریق کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑتی ہے،مذاکرات میں کامیابی چند روز میں نہیں ہو سکتی،مذاکرات کیلئے مزید وقت درکار ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ حکومتی جواب میں آئی ایم ایف معاہدے پر زور دیا گیاہے،عدالت میں ایشو آئینی ہے سیاسی نہیں،سیاسی معاملہ عدالت سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے،آئی ایم ایف معاہدہ، ٹریڈ پالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے؟
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بجٹ کیلیے آئی ایم ایف کا قرض ملنا ضروری ہے،اسمبلیاں نہ ہوئیں تو بجٹ منظور نہیں ہو سکے گا،پنجاب، کے پی اسمبلیاں تحلیل نہ ہوتیں تو بحران نہ آتا،بحران کی وجہ سے عدالت کا وقت بھی ضائع ہو رہا ہے،افہام و تفہیم سے معاملہ طے ہو جائے تو بحرانوں سے نجات مل جائے گی۔