چیئرمین پی ٹی آئی کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائرکردی۔ فائل فوٹو
چیئرمین پی ٹی آئی کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائرکردی۔ فائل فوٹو

پولیس عمران خان کو لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئی

اسلام آباد: سپریم کے حکم پر پولیس عمران خان کو لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئی،

عمران خان کی سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر عدالت کے باہر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، پولیس کا انسداد دہشتگردی اسکواڈ عدالت کے اطراف موجود ہے جب کہ پولیس کی جانب سے عدالت کے باہر سے غیر معینہ گاڑیوں کو بھی ہٹادیا گیا ہے۔

عدالت نے عمران خان کو ایک گھنٹے میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ سب کو قانون پر عمل کرنا ہوگا،عدالتی دروازے سے لوگوں کو گرفتار کیا گیاتوعدالت کون آئے گا؟عمران خان کی آمد پر کارکن سپریم کورٹ نہ آئیں، ہم آج ہی حکم جاری کریں گے۔

سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی،جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ بنچ میں شامل تھے۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ اسلام آبادہائیکورٹ کس کیس میں پیش ہوئے تھے ؟وکیل حامد خان نے کہاکہ عمران خان نیب کیس میں ضمانت کروانے کیلئے ہائیکورٹ آئے تھے،عمران خان بائیو میٹرک کروا رہے تھے کہ رینجرز نے ہلہ بول دیا، دروازہ اور کھڑکیاں توڑ کر عمران خان کو گرفتار کیاگیا،بائیو میٹرک کروانا عدالتی عمل کا حصہ ہے،عمران خان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور گرفتاری پر تشددہوئی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ریکارڈ کے مطابق جو مقدمہ مقرر تھا وہ شاید کوئی اور تھا،عدالتی حکم کے مطابق درخواست ضمانت دائر ہوئی تھی لیکن مقرر نہیں ۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کیا بائیومیٹرک سے پہلے درخواست ہو جاتی ہے،حامد نے کہا کہ بائیومیٹرک کے بغیر درخواست دائر نہیں ہو سکتی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ پہلی بات یہ ہے کہ عمران خان احاطہ عدالت میں داخل ہو چکے تھے، ایک مقدمہ میں عدالت بلایا تھا، دوسرا دائر ہو رہا تھا،کیا انصاف کے رسائی کے حق کو ختم کیا جاسکتا ہے؟یہی سوال ہے کہ کسی کو انصاف کے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟کیا مناسب ہوتا نیب رجسٹرار سے اجازت لیتا، نیب نے قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ معاملہ عدلیہ کے احترام کا ہے،نیب نے ایک ملزم سپریم کورٹ پارکنگ سے گرفتار کیا تھا،عدالت نے گرفتاری واپس کرا کر نیب کے خلاف کارروائی کی، نیب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی آئندہ ایسی حرکت نہیں ہو گی، نیب کی یقین دہانی سے 9 افسران توہین عدالت سے بچے تھے۔

عمران خان کو کتنے لوگوں نے گرفتار کیاتھا؟وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ 80 سے 100 لوگوں نے گرفتار کیا،رینجرز عدالتی احاطے میں آئے تو احترام کہاں گیا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ سے کیا چاہئے،وکیل حامد خان نے کہاکہ عمران خان کی رہائی کا حکم دیاجائے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ 100 لوگوں کے عدالتی احاطے سے داخلے سے خوف پھیل جاتا ہے،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ عدالت میں سرنڈر کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے تو کوئی عدلیہ پر اعتماد کیوں کرے گا؟

شعیب شاہین نے کہاکہ عدالتی عملے کو بھی تشدد کا نشانہ بنایاگیا،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ وارنٹ کی قانونی حیثیت کا نہیں اس کی تعمیل جائزہ لیں گے،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے کے عمل کو سبوتاث نہیں کیا جا سکتا،سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہا کہ عمران خان پر حملہ ہوا اور سکیورٹی بھی واپس لے لی گئی،عمران خان دہشتگردوں کے ریڈار پر تھے،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ عدالت صرف انصاف تک رسائی کے حق کا جائزہ لے گی،سلمان صفدر نے کہاکہ گرفتار کے وقت نیب کا تفتیشی افسر بھی موجود نہیں تھا،عمران خان کو ججز گیٹس سے پہنچایا گیا،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ نیب کئی سال سے منتخب نمائندوں کے ساتھ یہ حرکتیں کررہا ہے،وقت آ گیا ہے کہ نیب کے یہ کام ختم ہوں۔

لمان صفدر نے کہا اسد عمر کو ہائیکورٹ سے گرفتار کرلیاگیا،عمران خان کی گرفتاری کے بعد معلوم ہوا، یکم مئی کو وارنٹ جاری ہوئے تھے،سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایاوارنٹ ابھی تک عملدرآمد کیلئے نہیں موصول ہوا،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ سیاسی قیادت سے عدالت ی پیشی پر بھی اچھے ردعمل کی توقع کرتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ گرفتاری سے جو ہوا اسے رکنا چاہئے تھا،اس کا یہ مطلب نہیں کہ غیرقانونی اقدام سے نظرچرائی جا سکے،ایسا فیصلہ دینا چاہتے ہیںجس کا اطلاق ہر شہری پر ہوگا، انصاف تک رسائی ہر ملزم کا حق ہے،میانوالی کی ضلعی عدالت پر آج حملہ ہوا ہے،ضلعی عدالت پر حملے کا سن کر بہت تکلیف ہوئی، معلوم کریں یہ کس نے کیاہے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ عمران خان کو گھر سے یا عدالت کے باہر سے گرفتار کیا جاتا تو آج نہ ہوتے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ کیا نیب کے نوٹسز کا جواب دیا گیا تھا،وکیل نے کہاکہ نیب نوٹسز کاک جواب دیا گیا تھا،قانون کے مطابق انکوائری کی سطح پرگرفتاری نہیں ہو سکتی،انکوائری مکمل ہونے کے بعد رپورٹ وکیل ملزم کو دینا لازم ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیاکہ کیا عمران خان شامل تفتیش ہوئے تھے؟وکیل شعیب شاہین نے کہاکہ عمران خان نے نوٹس کا جواب نیب کو بھجوایا تھا،نیب کا نوٹس غیرقانونی تھا،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ نیب وارنٹ کی تعمیل کروانے کا طریقہ کار اصل مسئلہ ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ نیب وارنٹ تو عمران خان نے چیلنج ہی نہیں کئے تھے،عمران خان نیب میں شامل تفتیش کیوں نہیں ہوئے،وکیل عمران خان نے کہا کہ نوٹس کا جواب دیا گیا تھا،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کیانیب نوٹس میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کاکہا گیاتھا؟قانون پر عمل کی بات سب کرتے ہیں لیکن خود عمل کوئی نہیں کرتا،سب کی خواہش ہے کہ دوسرے قانون پر عمل کریں،واضح ہے کہ عمران خان نے نیب نوٹس پر عمل نہیں کیا،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ نیب نوٹس کا مطلب ہوتا ہے کہ متعلقہ شخص ملزم تصور ہو گا،کئی لوگ نیب نوٹس پر ہی ضمانت کرا لیتے ہیں،ریکارڈ کے مطابق عمران خان نے مارش میں موصول نیب نوٹس کا جواب مئی میں دیا،وکیل عمران خان نے کہاکہ عمران خان کو ایک ہی نیب نوٹس ملا،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ جسٹس محمد علی مظہر قانون پر عملدرآمد کی بات کررہے ہیں،اصلی معاملہ انصاف تک رسائی کے حق کا ہے،نیب نے وارنٹ کی تعمیل کیلئے پنجاب حکومت کو کیوں نہیں لکھا،نیب نے ملک کو بہت تباہ کیا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے عمران خان کو ایک گھنٹے میں پیش کرنے کا حکم دیدیا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ سب کو قانون پر عمل کرنا ہوگا،عدالتی دروازے سے لوگوں کو گرفتار کیا گیاتوعدالت کون آئے گا؟عمران خان کی آمد پر کارکن سپریم کورٹ نہ آئیں، ہم آج ہی حکم جاری کریں گے۔

قبل ازیں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے گرفتاری سے متعلق اضافی دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع کروا دیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے نیب کال اپ نوٹس، ڈی جی نیب کو لکھے خط کی کاپی جمع کرا دی، انہوں نے چیئرمین نیب کے خلاف دائر پیٹیشن اور بیان حلفی بھی جمع کرا دیا۔

عمران خان کی جانب سے درخواست میں کہا گیا ہے کہ بائیو میٹرک تصدیق کے دوران غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا۔ وکلا گوہر علی اور علی بخاری کیساتھ دوران گرفتاری بدتمیزی کی گئی، ہمارے وکلا کی آنکھوں میں زہریلا اسپرے پھینکا گیا، انصاف کے تقاضے کیلیے اضافی دستاویز کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔