سپریم کورٹ:عمران کو رہا کرکے پولیس لائنز رکھنےکا حکم۔گرفتاری غیرقانونی قرار

اسلام آباد (امت نیوز) سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت عظمیٰ نے عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سےدوبارہ رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے رہائی کا حکم لیکن کل ہائی کورٹ میں پیشی تک پولیس لائنز کے گیسٹ ہاؤس میں ہی رکھنے کا بھی حکم جاری کر دیا۔ اس دوران صرف دس افراد کو ملنے کی اجازت ہو گی۔
عمران خان کو سپریم کورٹ کے حکم پر پیش کیا گیا ،عمران خان کو 15 گاڑیوں پر مشتمل سکیورٹی قافلے میں سپریم کورٹ لایا گیا، انہیں کمرہ عدالت میں پہنچانے کے بعدکمرہ عدالت کو بند کردیا گیا۔
سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر عدالت کے باہر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیےگئے اور پولیس کی جانب سے عدالت کے باہر سے غیر متعلقہ گاڑیوں کو بھی ہٹادیا گیا۔
سپریم کورٹ میں عمران خان کی گرفتاری کو گزشتہ روز چیلنج کیا گیا تھا جس میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے، ہائیکورٹ کا عمران خان کی گرفتاری قانونی قرار دینے کا حکم کالعدم قرار دیا جائے اور عمران خان کو عدالت کے سامنے پیش کرنےکا حکم دیا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے درخواست کی سماعت کی
سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ آئے تھے، وہ بائیو میٹرک کرارہے تھے جب رینجرز کمرے کا دروزاہ توڑ کر داخل ہوئی تو انہوں نے عمران خان کے ساتھ بدسلوکی کی اور ان کو گرفتار کر لیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہائیکورٹ کے تقدس کا معاملہ بھی سپریم کورٹ دیکھے گی، انصاف تک رسائی کے حق کو ہم نے دیکھنا ہے، ہر شہری کو انصاف تک رسائی کا حق حاصل ہے، ہم یہاں صرف اصول و قواعد اور انصاف تک رسائی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں، سیاسی حالات کی وجہ سے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے بہت افسوسناک ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری سے عدالت کا تقدس کہاں گیا، ریکارڈ کے مطابق جو مقدمہ مقرر تھا وہ شاید کوئی اور تھا، 90 افراد عدالت کے احاطے میں داخل ہوئے تو عدالت کی کیا توقیر رہی؟ نیب نے عدالت کی توہین کی ہے، کوئی بھی شخص خود کو آئندہ عدالت میں محفوظ تصور نہیں کرے گا، کسی کو ہائیکورٹ، سپریم کورٹ یا احتساب عدالت سے گرفتار نہیں کیا جا سکتا، عمران خان کی گرفتاری سے عدالتی وقار مجروح کیا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب کئی سال سے مختلف افراد کے ساتھ یہی حرکتیں کر رہا ہے، اگر ایسے گرفتاریاں ہونے لگیں تو مستقبل میں کوئی عدالتوں پر اعتبار نہیں کرے گا، جب ایک شخص نے عدالت میں سرنڈر کر دیا تھا تو اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نیب وارنٹ کی قانونی حثیت نہیں اس کی تعمیل کا جائزہ لیں گے، عمران خان کی گرفتاری کے بعد جو ہوا وہ رکنا چاہیے تھا۔
جسٹس اطہر نے عمران خان کے وکلا سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں؟ اس پر حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ عمران خان کی رہائی کا حکم دے۔
حامد خان کے مؤقف پر چیف جسٹس نے کہا کہ غیر قانونی کام سے نظر نہیں چرائی جاسکتی، آپ جو فیصلہ چاہتے ہیں اس کا اطلاق ہر شہری پر ہوگا، انصاف تک رسائی ہر شہری کا حق ہے۔
عدالت نے سوال کیا کہ عمران خان نیب میں شامل تفتیش کیوں نہیں ہوئے؟ کیا نیب نوٹس میں عمران خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا گیا تھا؟ نیب دوسروں سے قانون پر عمل کرانا چاہتا ہے خود نہیں کرتا