لاہور ہائیکورٹ نے معروف صحافی اور نیوز اینکر عمران ریاض کو گرفتار کرنے والے ایس ایچ او کو معطل کردیا۔
لاہور ہائی کورٹ میں سینئر اینکر عمران ریاض خان کی بازیابی کیلئے دائر درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد امیر بھٹی نے درخواست پر سماعت کی۔ سپریٹنڈنٹ جیل سیالکوٹ اور ڈی پی او سیالکوٹ عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
عدالت نے سرکاری وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ڈپٹی کمشنر کے احکامات کے آرڈر لیکر آئے ہیں۔
سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ 2 گھنٹے کا وقت دے دیں میں تمام احکامات عدالت پیش کردیتا ہوں۔
عدالت نے ڈی پی او سیالکوٹ سے استفسار کیا کہ عمران ریاض کو کہاں سے گرفتار کیا ہے۔ڈی پی او نے جواب دیا کہ عمران ریاض کو ائیر پورٹ سے گرفتار کیا ہے۔
عدالت نے پولیس افسر سے استفسار کیا کہ کہاں ہے روزنامچہ جس میں آپ نے گرفتاری کا لکھا ہے، گرفتار کس کیس میں کیا ہے۔
پولیس افسر نے مؤقف پیش کیا کہ عمران ریاض کو ڈپٹی کمشنر کے ایم پی او کے آرڈر کے تحت گرفتار کیا گیا۔
عدالت نے پھر استفسار کیا کہ روزنامچہ میں کمشنر کے احکامات کا کہاں ذکر ہے، آپ کو جب گرفتاری کا لیٹر وصول ہوا تو روزنامچہ میں کیوں نہیں لکھا، آپ نے گرفتاری کرکے ڈپٹی کمشنر سے ایم پی او کے آرڈر کی ڈیمانڈ کر دی، روزنامچہ میں آپ نے گرفتاری کیلئے جاتے ہوئے بھی نہیں لکھا۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عمران ریاض کو گرفتار کرنے والے ایس ایچ او سیالکوٹ کو معطل کر دیا اور ریمارکس دیئے کہ آپ نے کیسے عمران ریاض کو گرفتار کیا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ایک ہفتے کا وقت دیتے ہیں، آپ کو شوکاز نوٹس جاری کیا ہے، آپ نے ایک ہفتے میں عدالت میں جواب جمع کروانا ہے۔
عدالت نے ڈی پی او سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں آپ کے ساتھ کیا کیا جائے، مجھے بتائیں آپ کو کس نے گرفتار کرنے کا حکم دیا، عمران ریاض تو ویسے ہی باہر جا رہا تھا۔
عدالت نے ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کو بھی طلب کرلیا۔
سرکاری وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ایسے حالات میں لا انفورسمنٹ ایجنسی کے کہنے پر کیا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہم قانون کی کتابیں بند کر دیتے ہیں،لا انفورسمنٹ کےکہنے پر سب چلا لیتے ہیں، جو یہ کہتے ہیں وہ قانون بنا لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ روزنامچہ کی قانون میں بہت اہمیت ہے، پولیس افسران کو اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں، یہاں میری سیٹ پر جو بیٹھتا ہے اللہ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے، مجھے پتہ تھا کہ پولیس کہاں کہاں غلطی کرسکتی ہے،اگرآپ کا ایمان مضبوط ہے تو کیوں ڈرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ڈی پی او سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ قانون کے مطابق کام کریں، آپ کو کسی کے کہنے پر ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے تھا، اگر آپ ایماندار ہیں تو اپکو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔
عمران ریاض کی جیل کی سی سی وی ٹی وی فوٹیج کمرہ عدالت میں چلائی گئی۔ عدالت نے کیس کی سماعت ایک بجے تک ملتوی کر دی۔