حاشر عظیم:
کہاں وہ عروج اور کہاں یہ زوال کی شروعات۔ شاندار بلندی سے ڈھلوان کا سفر بڑا اذیت ناک ہوتا ہے۔ اس عبرت سرائے دہر میں ازل سے یہ قصہ جاری ہے اور ابد تک چلتا رہے گا۔ لیکن سبق کوئی نہیں سیکھتا۔ سیاست کا بوڑھا مولا جٹ اب سسکیاں لے رہا ہے۔
زمان پارک میں چوبیس گھنٹے چلنے والا جشن ماند پڑ چکا ہے۔ مکان کے بڑے کمروں اور ہال کی فضا بوجھل اور افسردہ ہے۔ جنون کو ریاست سے لڑانے والے ’’انقلابی‘‘ رہنما کے آخری گھگھیاتے ویڈیو پیغام نے خاص طور پر چھوٹے بڑے ٹائیگروں کے حوصلے ریت کر دیئے ہیں۔ ٹکر کے لوگ ہانپ رہے ہیں اور ’’ہم پر رحم کرو‘‘ کی مجسم تصویر بنے ہوئے ہیں۔
ایسے میں ’’گھبرا نا نہیں ہے‘‘ کا تکیہ کلام رکھنے والا دور حاضر کا ’’چی گویرا‘‘ بتدریج تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ اس کے قریبی مشیر اور سنگی سائبیریا کے خانہ بدوش پرندوں کی طرح ایک ایک کرکے اڑ رہے ہیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ جس روز آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کا آغاز ہوگا۔ تب تک ان فصلی بٹیروں کی نصف تعداد داغ مفارقت دے چکی ہوگی۔ باقی پچاس فیصد فوجی عدالتوں کے فیصلے آنے پر راستے جدا کر لیں گے۔ یوں طاقتور سنگتراش کے ہاتھوں تراشے جانے والے تحریک انصاف کے بت کی کوکھ سے نئی پارٹی جنم لے گی۔ جس کی کمان ممکنہ طور پر جہانگیر ترین کے پاس ہوگی۔ کچھ اس حوالے سے اکبر ایس بابر کا نام بھی لے رہے ہیں۔
خود ساختہ مسیحا کے خبط نے اسے اور اس کے سحر میں اب بھی مبتلا گمراہ نوجوانوں کو اس سطح پر پہنچا دیا ہے کہ وہ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ طیش کا اظہار کرتے رہیں یا گھٹنوں کے بل جھک جائیں۔ لیکن شاید ’’انقلابی‘‘ نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے۔ وہ گڑگڑا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ’’میں منتظر ہوں مجھ سے کوئی بات کرے‘‘۔
ابھی کل کی بات ہے۔ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے ملنے والے بے مثال ریلیف نے چی گویرا ثانی کو یہ موقع دیا تھا کہ وہ شہدا کی یادگاروں اور فوجی تنصیبات پر وحشیانہ حملوں کی مذمت کر کے اپنی ناقابل معافی لغزشوں کا کسی حد تک ازالہ کر لے۔ لیکن رعونت غالب رہی اور اس نے یہ سنہری موقع کھو دیا۔
سیاسی جدوجہد کو جہاد قرار دینے والے ’’انقلابی‘‘ کے پیروکاروں کا دعویٰ ہے کہ قائد اعظم کے بعد وہ پاکستان کا سب سے مقبول لیڈر ہے۔ اس مبالغہ آرائی کو اگر ایک طرف رکھ دیں تو کم از کم یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کے پُرفریب نعروں اور تقاریر نے خاص طور پر نوجوان طبقے کی ایسی ذہن سازی کی کہ وہ اسے اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگے۔ وہ مقبول ہوتا رہا۔ اس میں ایک بنیادی فیکٹر یہ بھی تھا کہ اس کے چند قریبی ساتھی جھوٹ کو سچ میں بدلنے کا گر جانتے تھے۔
پھر یہ کہ ماضی کے صورت گروں نے ’’انقلابی‘‘ کی شخصیت کے گرد ’’مسیحا‘‘ کی افسانوی تخلیق بنائی اور جدید ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے اس کی حد درجہ تشہیر کی۔ اس کا مقصد پاکستانی آبادی کے ساٹھ فیصد نوجوان طبقے کی برین واشنگ کرنا تھی۔
اس حکمت عملی نے ’’انقلابی‘‘ کو ملک کا مقبول ترین رہنما بنا دیا۔ لیکن اب یہ بت ٹوٹ رہا ہے۔ کچھ تھوڑا وقت اور لگے گا کہ اس صنم کو تراشنے میں دو دہائیوں کا عرصہ لگا۔ دنیا کی تاریخ میں ہٹلر نے بھی بہت زیادہ شہرت پائی تھی۔ وہ اپنی ذات میں بے انتہا آمر تھا۔ وہ اپنی ہر ’’میں‘‘ کو دوسروں پر نافذ کرنا چاہتا تھا۔ میں بہتر جانتا ہوں۔ میں سب کچھ کر سکتا ہوں۔ میں دنیا کا مرکز ہوں۔ میں خود پوری دنیا ہوں۔ وہ تقریر کرتا تو لاکھوں کے مجمع پر سحر طاری کر دیتا تھا۔ ایسا عروج اور مقبولیت کہ الاماں۔ پھر مقبولیت کا یہ بت ٹوٹنے لگا۔
قدرت کے جاویدانی قانون کے تحت اس کا عروج ایک قصہ پارینہ بن گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی نے شکست کھائی تو زوال نے ہٹلر کو جکڑ لیا۔ لاکھوں کے مجمع چھٹ گئے۔ ہٹلر کی زندگی کے آخری دس روز بے بسی، تنہائی، لاچارگی، مایوسی، فرسٹریشن، بے چینی، کرب اور رسوائی کا نمونہ تھے۔ یہ آخری ایام اس نے زیر زمین ایک تاریک اور سیلن زدہ بنکر میں گزارے۔ آخری روز خودکشی سے پہلے اپنی محبوبہ ایوا براؤن سے شادی رچائی اور خود کو گولی مار لی۔ ایوا براؤن نے بھی ساتھ جان دے دی۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق س وقت ہٹلر کے وزیر دفاع البرٹ سپیئر بنکر کے پاس اُن سے ملنے اور الوداع کہنے آئے تھے۔ بعد میں سپیئر نے اپنی یادوں کو مجتمع کرتے ہوئے یہ بتایا کہ آخری ایام میں ہٹلر کی شخصیت میں بہت تبدیلی آ چکی تھی۔
’’آخری دنوں میں ہٹلر کی حالت کچھ ایسی تھی کہ اسے صرف بوسہ دیا جا سکتا تھا۔ اُس کا سارا جسم کپکپاتا اور اُس کے کندھے جھکے ہوئے تھے۔ اس کے کپڑے گندے تھے اور سب سے اہم بات اُس کا رد عمل بہت سرد تھا۔ میں اسے الوداع کہنے آیا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ لیکن اس نے ایسا کچھ نہیں کہا جو میرے دل کو چُھو جائے‘‘۔ ہٹلر کے بارے میں کتاب ’دی لائف اینڈ ڈیتھ آف ایڈولف ہٹلر‘ کے مصنف رابرٹ پائن نے اُس وقت ہٹلر کی حالت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں ’’ہٹلر کا پورا چہرہ سوج گیا تھا اور اُس پر بے شمار جھریاں نمودار ہو گئی تھیں۔ اُس کی آنکھوں میں زندگی کا چمک ماند پڑ چکی تھی۔ گویا وہ ایک بوڑھے گدھ کی مانند بیٹھا تھا۔ وہ ایک شرابی کی طرح لڑکھڑا رہا تھا۔ وہ ایک ہی ماہ میں دس برس بوڑھا ہو گیا تھا‘‘۔