ارشاد کھوکھر :
ملک بھر میں مردم شماری کے نام پر جاری ’’ڈیجیٹل ڈرامے‘‘ پر 35 ارب روپے خرچ ہوجانے کے باوجود بھی یہ ڈرامہ مکمل طور پر فلاپ ہوگیا ہے۔ جس کے بعد سب سے بڑا سوال اب یہ ہے کہ تنازعات سے بھرپوراس مردم شماری پر جو 35 ارب روپے پھونکے گئے ہیں، اس کے ذمے داران کا تعین ہو سکے گا یا نہیں۔
اس سلسلے میں کوئی جے آئی ٹی بنے گی یا کوئی انکوائری بھی ہوگی یا پھر اس معاملے کو سیاسی اختلافات، اعتراضات کی بھینٹ چڑھا کر جان چھڑا لی جائے گی۔ مردم شماری کے فلاپ ہونے سے سب سے زیادہ متعلقہ حکام کی ناتجربہ کاری اور اقرباپروری کا عنصر حاوی رہا ہے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کی مرمت، فرنیچر اور دیگر سامان کی خریداری پر جو اربوں روپے کے اخراجات ظاہر کئے گئے ہیں، اس کے ریکارڈ کی تحقیقات ہونا بھی ضروری ہے۔
مردم شماری کے اب تک جو اعدادوشمار سامنے آئے ہیں، ان پر عملدرآمد ہونے سے صوبہ پنجاب اور کے پی کے میں قومی اسمبلی کی آٹھ نشستیں کم ہو رہی ہیں۔ جبکہ بلوچستان میں سات اور سندھ میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی ڈویژن میں صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں کم اور ضلع شکارپور اور ضلع کشمور میں صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشست کے اضافے کے ساتھ ضلع کشمور میں قومی اسمبلی کی بھی ایک نشست بڑھ سکتی ہے۔ ادارہ شماریات نے تین روز قبل مردم شماری کا کام بند کرکے ٹیبلٹس وغیرہ واپس کرنے کا اعلان کیا گیا۔ لیکن دو روز قبل پھر سے ڈیجیٹل ڈرامہ جاری رکھنے کا آرڈر جاری کردیا گیا ہے۔
ملک بھر میں گزشتہ پانچ ماہ سے ڈیجیٹل مردم شماری کا کام جاری ہے۔ جو ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا۔ تاہم ادارہ شماریات نے اب یہ اعلان کیا ہے کہ اس کی مدت میں مزید اضافہ نہیں ہوگا۔ 30 مئی کے بعد اس کو حتمی شکل دی جائے گی۔
شروع سے ہی متنازع مردم شماری کے مکمل فلاپ ہونے کے اب کئی اور پہلو بھی سامنے آرہے ہیں۔ جس میں سب سے بڑا پہلو ادارہ شماریات کے افسران کی لاپرواہی، ناتجربہ کاری کے ساتھ اس میں ان کے پوشیدہ مخصوص مفادات بھی ہیں۔ اگر ماضی میں جھانکا جائے تو پہلے مردم شماری کیلئے تنظیم مردم شماری کے نام سے الگ ایک شعبہ ہوا کرتا تھا۔ جس سے وابستہ تمام افسران کا کام صرف مردم شماری اور اس سے وابستہ دیگر ڈیٹا کا حصول تھا۔ بعد ازاں ایگریکلچرل سینسس اور اس طرح کے ایک دو شعبوں کو ملاکر ادارہ شماریات کا ازسرنو وجود عمل میں لایا گیا۔
جہاں تک مردم شماری کے کام سے وابستہ اعلیٰ حکام جو کرتا دھرتا ہیں، کی تاریخ و جغرافیہ کو دیکھا جائے تو مردم شماری کے کام کی نگرانی کرنے والے ادارہ شماریات کے ممبر محمد سرور گوندل پہلے صوبہ پنجاب کے صوبائی آئی ٹی افسر تھے۔ جو بعد میں ادارہ شماریات کے ممبر بنے۔
ان کے پاس مردم شماری کے ٹیکنیکل کام کا کوئی تجربہ نہیں۔ انہیں مردم شماری کے کام کی ذمہ داری یہ سوچ کر دی گئی کہ چونکہ مردم شماری ڈیجیٹل بنیادوں پر ہو رہی ہے تو وہ آئی ٹی کے ماہر ہیں۔ نعیم الظفر جو سندھ کے محکمہ منصوبہ بندی و ترقی کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انہیں چیف سینسس کمشنر بنایا گیا۔ تیسرا اہم کردار خاتون افسر رابعہ اعوان کا ہے۔ جو پہلے ادارہ شماریات میں جو نقشے وغیرہ بنتے تھے ان کی ڈیزائننگ انچارج تھیں۔ انہیں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بنایا گیا۔ انتظامی طور پر دیکھا جائے تو ڈیجیٹل مردم شماری کا کام ان تینوں افراد کے زیر کنٹرول رہا ہے۔
ڈیجیٹل مردم شماری کے فلاپ ہونے کی بنیاد اس وقت ہی رکھ دی گئی تھی، جب مردم شماری کے متعلق تجربہ رکھنے والے افسران و ملازمین کو فیلڈ میں اہم ذمہ داریوں پر تعینات کرنے کے بجائے ادارہ شماریات سے وابستہ صرف سروے وغیرہ کے کام سے آشنا کئی افراد کو فیلڈ کے کام کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ایسا کیا سوچ کر کیا گیا؟ ذرائع کا کہنا ہے کہ فیلڈ میں اہم ذمہ داریاں دینے والے افسران و ملازمین کو بھی فیلڈ عملے کی طرح اعزازیہ تو ملتا ہی ہے۔ ان کے آنے جانے کیلیے ٹی اے/ ڈی اے، گاڑیوں کے فیول سمیت دیگر مراعات بھی انہیں حاصل ہوتی ہیں۔
مردم شماری کا کام فیلڈ میں متعلقہ ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کی زیر نگرانی ہوتا ہے۔ لیکن فیلڈ میں ناتجربہ کار اور اس کام سے ناآشنا افسران مقرر ہونے سے کئی افسران ایسے بھی تھے جن کی ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کے سامنے بات کرنے سے ٹانگیں کانپتی تھیں۔ ڈیجیٹل مردم شماری کے کام کو دیکھا جائے تو اس سلسلے میں پہلے دن سے لے کر آئے دن نئے نئے تجربات ہوتے رہے۔
فیلڈ عملے کو ٹیبلٹس کے حوالے سے جو تربیت دی گئی۔ اس کیلئے شہید بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کے ٹیبلٹس استعمال کئے گئے۔ جس کے بعد چین سے جو نئے ٹیبلٹس خریدے گئے ان کا ورژن کچھ اور تھا۔ ان ٹیبلٹس میں مردم شماری سے وابستہ ادارہ شماریات کے نقشوں کے بجائے سپارکو کے نقشے فیڈ کئے گئے۔ جن کا رزلٹ ناقص رہا اور تین چار بار سافٹ ویئر تبدیل کیا جاتا رہا۔ مردم شماری کے انتظامات کے نام پر اربوں روپے، فرنیچر کی خریداری، گاڑیوں کی مرمت، تیل کے اخراجات، مانیٹر سینٹرز کے قیام، ایئرکنڈیشنرز اور دیگر سامان کی مرمت و خرید پر ظاہر کئے گئے۔ اس نوعیت کے اخراجات پہلے جنرل برانچ کے توسط سے ہوتے تھے۔ لیکن اس مرتبہ اس سے ہٹ کر مذکورہ پرچیزنگ وغیرہ کا کام خاتون ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل رابعہ اعوان کے سپرد رہا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ مد میں ظاہر کئے گئے اخراجات کی ایف آئی اے یا کسی اور ادارے سے انکوائری کرانا بھی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں اگر جے آئی ٹی بناکر ڈیٹا کی چھان بین کرائی جائے تو بہت کچھ سامنے آسکتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ کراچی میں مردم شماری کے لئے قائم ڈیٹا پروسیسنگ سینٹر کی حالت زار ہے۔ جہاں پر کئی ملازمین گرمی سے بچنے کیلئے کھڑکیاں کھول کر کام کرتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس صورتحال میں کمپیوٹرز سسٹم کیسے چل رہا ہوگا؟۔
مردم شماری کیلئے تین فارم ہوتے ہیں۔ جن میں خانہ شماری کے لئے فارم نمبر ون، مردم شماری کیلئے فارم نمبر ٹو اور دیگر ڈیٹا کیلئے فارم ٹو۔ اے ملکی سطح پر ڈیٹا کے حوالے سے فارم ٹو اے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں کئی سوالات شامل ہوتے ہیں۔ ان میں ہائوسنگ کے متعلق جو سوالات شامل ہوتے ہیں ان میں گھر اپنا ہے یا کرایہ کا۔ گھر کی چھت پکی ہے یا کچی۔ گھر میں باتھ روم علیحدہ ہے یا اٹیچڈ ہے۔ باورچی خانہ سیپریٹ ہے یا نہیں۔ متعلقہ گھر کے مکین پہلے کونسے علاقے، شہر وغیرہ میں رہتے تھے۔
انہوں نے ہجرت کی تو اس کی اسباب کیا تھے۔ شادی تھی، روزگار تھا یا کوئی اور وجہ تھی۔ اور وہ لوگ یہاں کب سے آباد ہیں۔ گھر کے تمام افراد بچے سے لے کر بڑوں تک کی تعلیم کیا ہے، کونسی کلاس میں پڑھتے ہیں۔ متعلقہ گھر میں رہنے والوں میں اگر معذور افراد ہیں تو ان کی معذوری کا سبب کیا ہے۔ وہ پیدائشی معذور ہیں یا بعد میں معذور ہوئے تو کیسے۔ اس نوعیت کے کئی اور سوالات بھی ہوتے ہیں۔ فارم ٹو اے ہر گھر سے پر نہیں کرایا جاتا۔ بلکہ پانچ سے سات فیصد گھروں سے کرایا جاتا تھا۔
2017ء کی مردم شماری میں فارم ٹو اے شامل ہی نہیں کیا گیا۔ لیکن اس مرتبہ مذکورہ تینوں فارم، ٹیبلٹس میں فیڈ تو کئے گئے۔ لیکن بیشتر فیلڈ عملے نے فارم ٹو اے کے کوائف پر کرنے پر توجہ نہیں دی۔ جس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ہر شمار کنندہ کو دو دو سینسس بلاک دیئے گئے تھے۔ جنہیں 15 دن میں ایک بلاک کا کام مکمل کرکے دوسرے بلاک میں جانا تھا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو اگر کوئی شمار کنندہ ان تینوں فارمز کا ڈیٹا ٹیبلٹس میں فیڈ کرے تو انہیں فی گھر کے لئے 45 سے 50 منٹ درکار تھے۔ بیشتر شمار کنندگان نے وقت کم ہونے کے باعث ان کوائف کو نظر انداز کردیا۔
تقریباً پانچ ماہ سے جاری ڈیجیٹل مردم شماری کا کام ابھی تک اختتام پذیر نہیں ہوسکا۔ 23 مئی کو ادارہ شماریات کی جانب سے احکامات جاری کئے گئے کہ مردم شماری کیلئے دیئے گئے تمام ٹیبلٹس وغیرہ واپس کئے جائیں۔ لیکن گزشتہ روز پھر ادارہ شماریات کے متعلقہ افسران، کمشنرز ، ڈپٹی کمشنرز کو ایک نیا حکمنامہ موصول ہوا کہ ابھی ٹیبلٹس واپس نہ کیے جائیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری مکمل طور پر ناکام ہوچکی۔ اب متعلقہ حکام یہ جواز ڈھونڈنے میں لگے ہیں کہ مردم شماری پر جو 35 ارب روپے خرچ ہوئے، اس کے ڈوب جانے سے اپنے آپ کو کیسے بری الذمہ قرار دلاسکیں۔
علاوہ ازیں ڈیجیٹل مردم شماری کے اعدادوشمار کو دیکھاجائے تو ملک بھر میں جو آبادی ظاہر کی گئی ہے، وہ تقریباً 25 کروڑ 54 لاکھ 66 ہزار ہے۔ جس میں سے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر بھی تقریباً 59 لاکھ آبادی منہا کرکے باقی چاروں صوبوں اور اسلام آباد کی آبادی 24 کروڑ 95 لاکھ 66 ہزار ظاہر ہوتی ہے۔
2018ء کی طرح اگر آبادی کے حساب سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس حساب سے دیکھا جائے تو قومی اسمبلی کی 266 یونین نشستوں میں سے اوسطاً فی حلقہ 9 لاکھ 38 ہزار 218 کی آبادی پر بن رہا ہے۔ اس تناسب سے دیکھا جائے تو مردم شماری میں پنجاب کی مجموعی آبادی تقریباً 12 کروڑ 74 لاکھ 74 ہزار ظاہر ہو رہی ہے۔ جس کے باعث پنجاب میں 2018ء کے مقابلے میں قومی اسمبلی کے 5 حلقوں کی کمی کے ساتھ 136 حلقے بن رہے ہیں۔
اس طرح کے پی کے کی آبادی 3 کروڑ 98 لاکھ 23 ہزار سے زیادہ ظاہر ہوئی ہے۔ اس حساب سے کے پی کے میں 2018ء کے مقابلے میں قومی اسمبلی کے 3 حلقوں کی کمی کے ساتھ مذکورہ صوبے میں قومی اسمبلی کی جنرل نشستیں 42 بن رہی ہیں۔ ڈیجیٹل مردم شماری میں سندھ کی آبادی تقریباً 5 کروڑ 79 لاکھ 77 ہزار ظاہر ہو رہی ہے۔ اس حساب سے سندھ میں قومی اسمبلی کے حلقے 61 سے بڑھ کر 62 بن رہے ہیں۔ جبکہ ڈیجیٹل مردم شماری سے سب سے زیادہ فائدہ میں صوبہ بلوچستان نظر آرہا ہے۔ جس کی آبادی پہلے والی مردم شماری میں تقریباً ایک کروڑ 23 لاکھ ظاہر ہوئی تھی۔ جو اب دوکروڑ 19 لاکھ 77 ہزار سے زائد ظاہر ہورہی ہے۔ جس کے باعث صوبہ بلوچستان میں قومی اسمبلی کے حلقے 16 سے بڑھ کر 23 بن رہے ہیں۔
مذکورہ مردم شماری کے اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو قومی اسمبلی کے ایک حلقے کا جو اضافہ ہوسکتا ہے وہ حلقہ ضلع کشمور میں ہے۔ مذکورہ ضلع میں قومی اسمبلی کے حلقے ایک سے بڑھ کر دو ہوجائیں گے۔ جبکہ کراچی ڈویژن میں قومی اسمبلی کے حلقے 21 ہی رہیں گے۔ جن میں سے ضلع شرقی اور ضلع وسطی میں چار چار، ضلع غربی، ضلع کورنگی اور ضلع ملیر میں تین تین، ضلع کیماڑی اور ضلع جنوبی میں دو دو قومی اسمبلی کے حلقے بن رہے ہیں۔
اس کے علاوہ اگر مذکورہ اعدادوشمار کے حساب سے سندھ اسمبلی کی 130 جنرل نشستوں کو دیکھا جائے تو فی حلقہ اوسطاً چار لاکھ 45 ہزار 112 افراد کی آبادی پر بن رہا ہے۔ اس حساب سے کراچی ڈویژن میں صوبائی اسمبلی کے حلقے ایک سے دو تک کم ہو سکتے ہیں۔ ضلع کیماڑی کے قیام سے قبل ضلع کیماڑی کے علاقے بھی جب ضلع غربی میں شامل تھے، اس وقت 2018ء کی حلقہ بندی کے مطابق مذکورہ ضلع میں صوبائی اسمبلی کے 11 حلقے تھے۔ لیکن ڈیجیٹل مردم شماری میں جو اعدادوشمار سامنے آئے ہیں۔
اس کے مطابق ضلع غربی اور ضلع کیماڑی میں صوبائی اسمبلی کے پانچ پانچ حلقے بن رہے ہیں۔ اس طرح 2018ء کی طرح ضلع ملیر میں صوبائی اسمبلی کے پانچ ، ضلع شرقی اور ضلع وسطی میں آٹھ آٹھ اور ضلع کورنگی میں صوبائی اسمبلی کے سات حلقے برقرار رہتے ہیں۔ جبکہ کراچی کے ضلع جنوبی میں آبادی کی معمولی شرح کی کمی کے باعث مذکورہ ضلع میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ پانچ سے کم ہوکر چار ہو سکتے ہیں۔ سندھ کے دیگر اضللع کو دیکھا جائے تو ضلع کشمور میں قومی اسمبلی کے حلقے کے اضافے کے ساتھ صوبائی اسمبلی کے حلقے بھی تین سے بڑھ کر چار ہوجائیں گے۔
ضلع شکارپور میں بھی صوبائی اسمبلی کے حلقے تین سے بڑھ کر چار ہوجائیں گے اور ضلع میرپور خاص میں بھی صوبائی اسمبلی کے حلقے چار بن رہے ہیں۔ جبکہ حیدرآباد سمیت سندھ کے باقی تمام اضلاع میں صوبائی و قومی اسمبلی کے حلقے وہی رہیں گے جو 2018ء کی حلقہ بندی میں سامنے آئے تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس معاملے میں پنجاب کی صوبائی حکومت کی خاموشی معنی خیز ہے۔ مذکورہ ذرائع کا کہنا تھا کہ پنجاب کے حکام یہ سمجھتے ہیں کہ ڈیجیٹل مردم شماری پر اتفاق رائے یا اس کے نتائج کی منظوری ناممکن ہو چکی ہے۔ شاید اس لئے بھی پنجاب حکومت خاموش ہے۔ مذکورہ مردم شماری کے اعدادودشمار کے مطابق سب سے بڑا فائدہ صوبہ بلوچستان کو ہوا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی بلوچستان کا کیا موقف یا ردعمل آتا ہے۔تاہم یہ بات طے ہے کہ مذکورہ مردم شماری کے نتائج کئی سیاسی جماعتوں اور بعض صوبائی حکومتوں کے لئے ناقابل قبول ہوں گے۔ اس کے باعث اس بات کا تعین ہونا ضروری ہے کہ 35 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ ہونے کے باوجود بھی مردم شماری کے فلاپ ہونے کے ذمے دار کون ہیں۔