حاشر عظیم :
حصول اقتدار کی ہوس میں پاکستانی سیاست کو پراگندہ کرنے اور آخری حدیں عبور کرنے والے بوڑھے خبطی کو اب غدار شیخ مجیب نا صرف بے قصور دکھائی دینے لگا ہے۔ بلکہ وہ اپنا موازنہ اسی بد بخت سے کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس کے بچے کھچے پیروکار بھی اس بیانیہ کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ وہ کہتا ہے ’’شیخ مجیب نے بار بار کوشش کی کہ یحییٰ اور بھٹو سے بات ہو جائے۔کیونکہ مجیب نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان ٹوٹے۔ وہ اپنے چھ نکات پر بھی مذاکرات کے لیے تیار تھا۔ لیکن یحییٰ اور بھٹو اس سے بات ہی نہیں کرتے تھے، کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ بات چیت کامیاب ہو۔ اس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا۔ ہمارے ساتھ بھی اس وقت یہی ہو رہا ہے۔‘‘
شکست خوردہ کپتان کی جانب سے یہ حقائق کو مسخ کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ ان مذاکرات کی تفصیلات سے آگاہ بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ بتاتے ہیں ’’پندرہ مارچ انیس سو اکہتر سے تئیس مارچ تک ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب کے مابین مسلسل مذاکرات ہوتے رہے۔ اس دوران شیخ مجیب کے چھ نکات میں سے تقریباً ساڑھے پانچ نکات مان لیے گئے تھے۔ باقی جو نصف نکتہ رہ گیا تھا، اس پر بھی ذوالفقارعلی بھٹو اور اس کے ساتھی لچک دکھانے پر آمادہ تھے۔ لیکن جب شیخ مجیب نے دیکھا کہ اس کے سارے نکات مانے جارہے ہیں اور اس صورت میں مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے۔ تو پھر اس نے چال چلی اور پہلے سے طے شدہ چھ نکات کے علاوہ مزید نکات پیش کرنا شروع کر دیے۔ اس کے نتیجے میں مذاکرات میں ڈیڈ لاک ہوگیا۔
23مارچ انیس سو اکہترکو شیخ مجیب اور اس کے ساتھیوں نے یہ کہہ کر مذاکرات ختم کر دیے کہ اب وہ متحدہ پاکستان کے حوالے سے مزید بات چیت نہیں کریں گے۔ اس کے باوجود اگلے دن، چوبیس تاریخ کو بھی شیخ مجیب اور اس کے ساتھیوں کا انتظار کیا گیا کہ شاید مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کی کوئی امید پیدا ہو جائے۔ جب یقین ہوگیا کہ شیخ مجیب اور اس کے ساتھی مذاکرات کرنے کے لئے سنجیدہ نہیں ہیں اور وہ بھارت کی ہدایت پر صورتحال کو خانہ جنگی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، تو آخر کار فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا گیا جو پچیس مارچ انیس سو اکہتر کی رات کو شروع کیا گیا۔‘‘
فوجی آپریشن کا فیصلہ درست تھا یا غلط؟ یہ الگ بحث ہے۔ لیکن یہ ثابت شدہ تاریخ ہے کہ شیخ مجیب اور اس کے ساتھی بھارت کی ڈکٹیشن پر ملک توڑنے کے ایجنڈے پر کارفرما تھے۔ بار بار71کے واقعات کا حوالہ دے کر بوڑھا خبطی بین السطور میں کیا یہ دھمکی دے رہا ہے کہ وہ بھی شیخ مجیب کا راستہ اختیار کر سکتا ہے؟ شاید اسے شیخ مجیب کا عبرت ناک انجام یاد نہیں کہ خود اس کے اپنے لوگوں نے اسے گولی ماردی تھی۔
زمان پارک کے قلعہ میں تنہا بیٹھا خبطی بوڑھا کبھی اپنا موازنہ شیخ مجیب سے کرتا ہے تو کبھی خود کو ٹیپو سلطان قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے ’’غلامی سے بہتر ہے، ٹیپو سلطان کی طرح مر جاؤ۔‘‘ کوئی اس سے پوچھے کہ ٹیپو سلطان تو غاصب اور قابض انگریز فوج سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ تو کیا خود کو ٹیپو سلطان قرار دینے والا شکست خوردہ کپتان اپنے تیئں کسی مقبوضہ ملک میں بیٹھا ہے؟
تشویش ناک بات یہ ہے کہ سانحہ 9 مئی کے بعد بھی شکست خوردہ کپتان اشتعال انگیزی سے باز نہیں آرہا۔ اگرچہ سورج سے بھی زیادہ واضح ہے کہ اس کا کھیل ختم ہوچکا۔ سارے ساتھی ایک ایک کرکے اسے چھوڑ رہے ہیں۔ لیکن وہ اب بھی ان نوجوانوں کو ٹیپو سلطان کی طرح لڑ کر مرجانے پر اکسارہا ہے جو تاحال اس کی گمراہی کے جال میں پھنسے ہیں۔ ان میں سے ہزاروں کو اس وقت سنگین مقدمات کا سامنا ہے ۔
ایک ٹوئٹر اسپیس میں وہ اپنے سپوٹرزکو مخاطب کرکے کہتا ہے ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ غلامی سے بہتر موت ہے، مرجائو۔‘‘ بوڑھے خبطی کے اسی زہریلے بیانئے کے سبب سانحہ 9 مئی برپا ہوا تھا جس کے بعد یہ سوچا جارہا تھا کہ شاید اب وہ ہوش مندی کا مظاہرہ کرے گا۔ لیکن لگتا ہے کہ اقتدار کی نفسانی خواہشات نے اور اب عزیزوں کی موت سے بڑھ کر، غمگین تنہا راتوں نے اس کا دماغ ماؤف کر دیا ہے۔ وہ نوجوانوں کی منفی ذہن سازی سے باز نہیں آرہا۔
سانحہ 9 مئی کے بعد سے بوڑھا خبطی اب تک تین خطاب کرچکاہے۔ ان میں سے ایک اپنے من پسند حواریوں کے ساتھ ٹویٹر اسپیس میں سوالات اور جوابات کا سیشن تھا اور دو بار ’’قوم سے خطاب‘‘۔ ان تینوں مواقع پر اس کی گفتگو مکر و فریب، ریاکاری اور تضادات کا بے مثال نمونہ تھی۔ اس نے کہا، بہادرشاہ ظفر کی طرح سرنڈر کے بجائے اسے ٹیپو سلطان کا راستہ پسند ہے۔ لیکن اگلی سانس میں کہتا ہے کہ، وہ روز اس انتظار میں بیٹھتا ہے کہ کب پولیس اسے گرفتار کرنے آتی ہے۔
اس کے لیے وہ ذہنی طور پر تیار ہے۔ وہ پیچھے ہٹنے اور پارٹی چھوڑنے کی پیشکش بھی کر چکا ہے۔ لیکن اپنے پیچھے چلنے والے نوجوانوں کو مر جانے درس دے رہا ہے اور کسی طور بھی اس ’’جہاد‘‘ کا ثواب کمانے کے لئے اپنے بیٹوں کو انگلینڈ سے بلانے پر آمادہ نہیں ۔ برائی کو اچھائی کے پردے میں اور بدی کو نیکی کے نقاب میں چھپانے کے ماہر سفاک مداری نے ان والدین کے ذہن بھی بند کردئیے تھے، جو اپنی جواں سال اولاد کو اس کے شیطانی کھیل کا ایندھن بناتے رہے۔ شاید اب انہیں ہوش آجائے۔