عمران خان :
بھارت سے اسمگل ہوکر آنے والے پان پراگ، گٹکا اور سپاریوں میں انتہائی مضر صحت اجزا کے استعمال کا انکشاف ہوا ہے۔ جس کے بعد کسٹمز انفورسمنٹ کلکٹریٹ کے حکام کی ہدایات پر اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن (اے ایس او) کراچی کی ٹیم نے اس اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورک کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈائون شروع کردیا ہے۔
واضح رہے کہ بھارتی گٹکے کی کھپت کراچی اور کوئٹہ میں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں پہلی بار کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر شہروںکے اسپتالوں میں اعداد و شمار کے مطابق گلے اور سینے کے کینسر میں مبتلا مریضوں کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ بھارتی سپاریوں اور گٹکوں میں استعمال ہونے والے مینتھول، کتھے کے اجزا انتہائی گھٹیا اور زائدالمعیاد ہیں۔ جبکہ صندل، جنگلی پودینے، لونگ اور الائچی کے چورے اور پائوڈر کے نام پر ان اشیا کا ایسنس اور جعلی فلیور استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ کیمیکل مسلسل استعمال کرنے والے گلے کے کینسر سمیت دیگر مہلک امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق گزشتہ دنوں کسٹمز انفورسمنٹ کلکٹریٹ کراچی کی ٹیم نے بڑی کارروائی میں بھارت میں تیار کردہ 13 کروڑ روپے مالیت کی 3 اقسام کے گٹکا سپاری کی کھیپ برآمد کر کے ملوث اسمگلرز اور ڈیلرز کے خلاف تحقیقات شروع کردی ہیں۔ اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن ( اے ایس او) کی ٹیم نے خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے موچکو چیک پوسٹ کے قریب ہینو ٹرک کو روک کر تلاشی لی اور اس میں مہارت سے چھپائی گئی بھارتی گٹکے اور سپاری کی بھاری کھیپ ضبط کر کے ڈرائیورکوگرفتارکرلیا۔
برآمد سامان میں 12 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے سفینہ، عداب اور رائل برانڈ اور گٹکا سپاری شامل ہے۔ جبکہ ضبط شدہ ٹرک کی قیمت ایک کروڑ کے قریب ہے۔ کسٹمز نے سامان، گاڑی اور ملزم کو اے ایس او ہیڈکوارٹر منتقل کر کے مقدمہ درج کرلیا۔ جس میں سامان کے اسمگلرز اور منگوانے والے مقامی ڈیلرز کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے۔
تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ افغان ٹرانزٹ اور بلوچستان کے راستے اسمگل ہوکر آنے والے سامان میں بھارت میں تیار ہونے والے سپاری اور گٹکا کے برانڈز میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ کراچی میں اس سامان کے درجنوں بڑے گوداموں اور مقامی مارکیٹوں میں سپلائی کی کھپت بننے کے بعد اب کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر شہروں کے علاوہ حیدر آباد، سکھر، ٹھٹھہ، بدین وغیرہ میں بھی ان کی سپلائی اور کھپت بڑھ رہی ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ ان سپاریوں میں مضر صحت کیمیکل کا بے جا استعمال ہے۔ جو استعمال کرنے والوں کو جلد ہی اپنا عادی بنا دیتا ہے اور مقامی طور پر تیار سپاریوں کے مقابلے میں زیادہ لذت فراہم کرتا ہے۔ تاہم یہی سپاریاں اور گٹکا شہریوں کو گلے، زبان اور منہ کے کینسر میں بھی تیزی سے مبتلا کر رہا ہے۔
ذرائع کے بقول سندھ کے بعد بلوچستان کے شہروں میں اس کی بڑھتی ہوئی کھپت پر ایک ریسرچ کی گئی ہے۔ جس میں معلوم ہوا ہے کہ ماضی میں یہ سامان صرف کراچی اور سندھ کے لئے لایا جاتا تھا۔ بلوچستان کے سرحدی علاقوں کے شہری خود اس کو استعمال نہیں کرتے تھے۔ تاہم گزشتہ چند برسوں میں ان علاقوں کے نوجوانوں میں ناقص اور گھٹیا زائدالمعیاد مینتھول والی یہ سپاریاں اور گٹکا مقبول ہونے لگا۔ جنہیں اب مقامی مارکیٹوں میں فروخت کیلئے سپلائی کیا جانے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف چند برسوں میں کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر شہروں میں جہاں ماضی میں گلے، منہ اور سینے کے کینسر کے مریضوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ اب 10 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔
ذرائع کے بقول معلوم ہوا ہے کہ بھارت میں تیار ہونے والی ان سپاریوں اور گٹکوں میں جو اجزا استعمال کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے یا ان کی پیکنگ پر درج ہوتا ہے۔ ان میں چھالیہ، کتھے کا پائوڈر، الائچی دانے کا چورا، چونا، مینتھول، لونگ کا چورا، صندل کی لکڑی کا چورا، پیچولی، جنگلی پودینہ کا پائوڈر اور ذائقے کیلیے مصنوعی فلیور کے کیمیکل شامل ہیں۔ لیکن تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ یہی بھارتی سپاریاں بھارت میں استعمال کی جاتی ہیں تو ان کے سفوف یا پائوڈر کا رنگ بالکل سفید ہوتا ہے۔ تاہم پاکستان میں اسمگل ہوکر آنے والی انہی برانڈز کی سپاریوں اور گٹکوں کے سفوف اور پائوڈر کا رنگ گلابی یا کریم کلر کا ہوتا ہے۔ جس کے لیبارٹری ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ ان میں کیمیکل کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ جبکہ مینتھول اور کتھے کا پائوڈر انتہائی ناقص اور زائدالمعیاد استعمال کیا جاتا ہے۔
اسی طرح چھالیہ کے دانے بھی مضر صحت اور تھرڈ کلاس چھالیہ سے بنائے جاتے ہیں۔ جبکہ دیگر ظاہر کردہ جڑی بوٹیوں یعنی جنگلی پودینہ، لونگ اور صندل کے چورے یا پوئڈر کے نام پر مضر صحت کیمیکل زدہ ایسنس استعمال کئے جاتے ہیں۔ کسٹمز ذرائع کے مطابق سامنے آنے والے حقائق کی روشنی میں ایک بڑے کریک ڈائون کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جس کیلئے بھارتی سامان کو ترجیح میں شامل کرکے بلوچستان اور سندھ میں ان کے اسمگلرز، ڈیلرز اور گودام مالکان کی فہرستیں مرتب کی جا رہی ہیں۔ تاکہ ان کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں کی جا سکیں۔