تحریک انصاف کا خیبرپختونخوا سے مکمل خاتمہ ہو گیا۔ فائل فوٹو
 اسلام آباد کے فارم ہاؤس میں کرائے پر رہائش پذیر ہیں جہاں اس وقت سناٹوں کا راج ہے- فائل فوٹو

پرویز خٹک اپنا گروپ بنانے کی تیاریوں مصروف

امت رپورٹ :
تحریک انصاف کے اہم رہنما پرویز خٹک اپنا گروپ بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اگرچہ انہوں نے اپنا آئندہ کا سیاسی پلان مخفی رکھا ہوا ہے اور ترین گروپ جوائن کرنے سے متعلق خبروں کی بھی سختی سے تردید کی ہے۔ تاہم قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پرویز خٹک بھی آخر کار پی ٹی آئی چھوڑدیں گے لیکن وہ انفرادی طور پر نہیں بلکہ ایک گروپ کی شکل میں کسی دوسری پارٹی کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔

قریبی ذرائع کے بقول صوبہ خیبرپختونخوا کے متعدد ایم پی ایز ان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ البتہ اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر آج کل سناٹوں کا راج ہے، جہاں کبھی سیاسی لوگوں کا تانتا بندھا ہوتا تھا۔

واضح رہے کہ تحریک انصاف میں ٹوٹ پھوٹ کے برق رفتار عمل کے بعد اب اس کی کوکھ سے ایک نئی پارٹی ’’استحکام پاکستان‘‘ جنم لی چکی ہے۔ تاہم اس میں شامل پی ٹی آئی کے سابق اکثریتی رہنمائوں کا تعلق پنجاب سے ہے۔ پنجاب کے مقابلے میں خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل قدرے سست ہے۔

یہاں کے صف اول کے بعض پی ٹی آئی رہنمائوں نے اگرچہ پارٹی عہدوں سے دستبرداری کا اعلان کردیا ہے لیکن پارٹی نہیں چھوڑی ہے اور نہ اب تک ترین گروپ کا حصہ بنے ہیں۔ ان میں ہی پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے سابق صدر اور سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک بھی شامل ہیں، جو وزیر دفاع بھی رہ چکے ہیں۔

پرویز خٹک کے بارے میں یہ خبریں تواتر سے چلی تھیں کہ وہ جہانگیر ترین گروپ میں شامل ہونے والے ہیں اور ان کے لئے استحکام پاکستان پارٹی میں سیکریٹری جنرل کا عہدہ خالی چھوڑا گیا ہے۔ تاہم پرویز خٹک نے ان خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’’میری جہانگیر ترین سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی ہے ،نہ سیکریٹری جنرل کے عہدے کی پیشکش ہوئی اور نہ میں نے ایسی کوئی آفر قبول کی ہے۔ میں اپنی جگہ پر ہوں اور صوبے میں اپنے ساتھیوں سے رابطے میں ہوں۔‘‘

پرویز خٹک کے ایک انتہائی قریبی ذریعے نے بتایا کہ چار پانچ روز پہلے منظر عام پر آنے کے بعد سے سابق وزیر دفاع اسلام آباد میں واقع اپنی رہائش گاہ پر موجود ہیں۔ انہوں نے رہائش کے لئے آرچرڈ اسکیم اسلام آباد میں ایک فارم ہاؤس کرائے پر لے رکھا ہے۔ اس رہائش گاہ پر کبھی سیاسی لوگوں کا تانتا بندھا ہوتا تھا لیکن اب سناٹوں کا راج ہے۔ قریبی ذریعے نے بتایا کہ پچھلے تین چار روز کے دوران انہوں نے اپنی رہائش گاہ آنے والے چند اہم شخصیات سے صرف ایک ملاقات کی ہے۔

اس کے علاوہ فی الحال انہوں نے ملنا جلنا اور سیاسی ملاقاتیں ترک کر رکھی ہیں۔ البتہ بذریعہ واٹس ایپ خیبرپختونخواہ میں وہ اپنے سیاسی لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ذریعہ کے بقول پرویز خٹک نے ترین گروپ میں جانے سے متعلق خبروں کی جو تردید کی ہے، یہ اس حد تک درست ہے کہ وہ انفرادی طور پر کسی بھی پارٹی میں جانے کے خواہش مند نہیں ہیں۔

پرویز خٹک کا پلان ہے کہ وہ خیبرپختونخوا کے ارکان پر مشتمل ایک مضبوط گروپ تشکیل دے لیں اور اس کے بعد ہی جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی یا کسی دوسری پارٹی میں ایک گروپ کی شکل میں ضم ہوں تاکہ ان کا وزن بھاری رہے۔

ذریعہ کے مطابق اپنی سیٹ کے علاوہ پرویز خٹک کے خاندان کے کئی افراد صوبائی اور قومی اسمبلی میں موجود رہے ہیں۔ اپنے آبائی حلقہ نوشہرہ کے علاوہ آس پاس بھی ان کی اچھی خاصی سیاسی تعلق داری ہے۔ ان میں صوابی سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے اہم رہنما شاہرام ترکئی اور مانسہرہ کی سیاسی شخصیات بھی شامل ہیں۔ ان سب کو ساتھ ملاکر وہ خیبرپختونخوا میں ایک مضبوط سیاسی گروپ بناسکتے ہیں۔

ذریعے کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی خیبرپختونخوا کے تین درجن سے زائد سابق ارکان صوبائی اسمبلی پرویز خٹک سے رابطے میں ہیں۔ اگرچہ اسد قیصر بھی الگ گروپ بنانے کے چکر میں ہیں لیکن یہ خارج از امکان نہیں کہ وہ بھی پرویز خٹک کے ساتھ مل جائیں۔ذریعے کا دعویٰ ہے کہ پرویز خٹک کی نظریں وزارت اعلیٰ پر ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنے مضبوط گروپ کے ساتھ کسی پارٹی کو جوائن کریں تاکہ ایک بار پھر خیبرپختونخوا کا وزیراعلیٰ بننے کا خواب پورا کرلیں۔استحکام پاکستان پارٹی کے علاوہ پرویز خٹک کے پاس پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام میں شمولیت کے آپشن بھی موجود ہیں۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ اگر موجودہ پی ٹی آئی ’’مائنس عمران ‘‘ کے تحت برقرار رہتی ہے تو وہ اسی پارٹی میں اپنے مستقبل کے خواب کو تلاش کرلیں۔

پرویز خٹک کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر سانحہ 9 مئی نہ بھی ہوتا تو پرویز خٹک پی ٹی آئی چھوڑنے کی تیاری کرچکے تھے اور پچھلے دو تین ماہ سے نئے گھونسلے کی تلاش میں تھے۔ اس کا بڑا سبب بی آر ٹی اور مالم جبہ کیسز ہیں۔ اس پر تفصیلی رپورٹ ’’امت‘‘ کے ان ہی صفحات پر شائع ہوچکی ہے۔

ذرائع کے مطابق ان دونوں اسکینڈلز کو لے کر پرویز خٹک کے خلاف بھاری فائلیں تیار کی جاچکی ہیں لہٰذا ان کے پاس پی ٹی آئی چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، سانحہ 9 مئی نے ان کے مستقبل کے پلان کو آسان کردیا ہے۔

واضح رہے کہ پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے (بی آر ٹی) میں مبینہ کرپشن کی انکوائری میں پرویز خٹک کا نام بھی آتا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے ہمدرد سمجھے جانے والے سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے دور میں سپریم کورٹ نے اس اسکینڈل کی انکوائری روکنے کے لئے حکم امتناع جاری کردیا تھا۔ اب خیبر پختونخواہ کی نگراں حکومت نے بی آر ٹی منصوبے میں مبینہ کرپشن اور بے ضابطگیوں کی تحقیقات روکنے سے متعلق دائر اپیل واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔

اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا جس کے بعد بی آر ٹی منصوبے میں ہونے والی مبینہ کرپشن کے خلاف تحقیقات کو تیزی کے ساتھ منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ اسی طرح دوہزار اٹھارہ میں منظر عام پر آنے والے مالم جبہ اسکینڈل کی تحقیقات بھی تیز کرنے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔

چیئرمین نیب نے اسے بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی روشن مثال قرار دیتے ہوئے انکوائری کا حکم دیا تھا اور بعد ازاں اس انکوائری کو تحقیقات میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں سابق وزیر اعلیٰ محمود خان، سابق وزیر دفاع پرویز خٹک اور دیگر کو بھی تحقیقات کے لئے طلب کیا گیا تھا۔ بعد ازاں یہ معاملہ پس منظر میں چلا گیا۔