محمد قاسم :
صوبہ خیبرپختون میں اتحادی نگراں حکومت میں شامل جماعتوں کے درمیان رسہ کشی شروع ہو گئی ہے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے گورنر حاجی غلام علی کو ہٹانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ جبکہ اے این پی بھی گورنر کے مخالف ہے۔
بجٹ سے قبل یہ رسہ کشی اس لیے شروع ہوئی کہ دیگر جماعتوں کو ڈر ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کا گورنر اپنے بیٹے میئر پشاور حاجی زبیر علی کے ذریعے ترقیاتی کام کر کے پشاور کے حلقوں پر اثرانداز ہوں گے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق خیبر پختون میں اتحادی حکومت گورنر کے رویے سے نالاں ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ’’ن‘‘ نے پارٹی قائدین سے گورنر کو ہٹانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ نون لیگ کے صوبائی رہنما اور سابق ایم پی اے اختیار ولی کا کہنا ہے کہ اس صوبے پر گورنر راج نافذ ہے۔ موجودہ گورنر کو ہٹایا جائے اور ہمارے ہاتھ کھولے جائیں۔ کیونکہ ہمارے کارکنان مایوس ہورہے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام مرکز اور صوبے دونوں میں مزے کر رہی ہے۔ یہ انتخابات کا سال ہے۔ کارکنوں کو مزید دھوکا نہیں دے سکتے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کی خاتون رہنما نگہت اورکزئی نے آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو سے مطالبہ کیا ہے کہ کے پی حکومت سے نکلا جائے یا گورنر کو ہٹایا جائے۔ کیونکہ ان حالات میں بدنامی پی پی کے حصے میں بھی آئے گی۔ جبکہ فائدہ جے یو آئی اٹھائے گی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ساتھ ساتھ عوامی نیشنل پارٹی بھی گورنر حاجی غلام علی کے خلاف میدان میں اتر گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ دنوں اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کر کے گورنر کی شکایت کی تھی۔ تاہم وزیر اعظم نے نون لیگ کے رہنمائوں امیر مقام، اختیار ولی، اورنگ زیب نلوٹھہ اور مرتضیٰ جاوید عباسی سے ملاقات کر کے انہیں جے یو آئی کے خلاف بیان بازی سے روک دیا ہے۔
ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وزیر اعظم نے لیگی رہنمائوں کو بتایا ہے کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور جے یو آئی کے درمیان انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوگی۔ جبکہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے درمیان اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوگی۔ اس لیے لیگی رہنما اے این پی اور پی پی کے ساتھ مل کر خیبرپختون کے گورنر حاجی غلام علی کے خلاف بیانات دینے سے گریز کریں۔ البتہ شہباز شریف نییقین دلایا کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے جائز مطالبات کا ازالہ کیا جائے گا۔
ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جے یو آئی کی کوشش ہے کہ بجٹ میں سے ان حلقوں میں جاری ترقیاتی کاموں کو زیادہ فنڈز فراہم کیے جائیں۔ جہاں جے یو آئی کو فائدہ پہنچے۔ اے این پی کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پشاور میں جے یو آئی کی جگہ اے این پی کا سیاسی اثر و رسوخ زیادہ ہے۔ لیکن جے یو آئی پشاور کے میئر حاجی زبیر علی جو مولانا فضل الرحمان کے داماد بھی ہیں، کے ذریعے ترقیاتی کاموں میں مصروف ہے اور نو مئی کے واقعے کے بعد سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی، حاجی غلام علی اور مولانا فضل الرحمان کے بھائی مولانا لطف الرحمان گورنر ہائوس میں بیٹھ کر فیصلے کر رہے ہیں۔ ان فیصلوں کا زیادہ نقصان اے این پی کو ہی ہوگا۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما اور کارکنان 9 مئی کے سانحے کے بعد عمران خان کے خلاف مقدمات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ اب بھی پرامید ہیں کہ کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔ ذرائع کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ اور پی ٹی آئی کے سابق صوبائی صدر پرویز خٹک نے پارٹی رہنمائوں سے کہا ہے کہ وہ صبر کریں۔ ہم سب مل کر اپنا ایک گروپ بنا کر انتخابات میں حصہ لیں گے اور جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گے۔ کیونکہ جماعت اسلامی کے ساتھ پہلے بھی ہم حکومت میں رہے ہیں۔
تحریک انصاف کو اب بھی صوبے میں دیگر سیاسی جماعتوں پر غلبہ حاصل ہے۔ تاہم 9 مئی کے واقعے کے بعد تحریک انصاف کے بیشتر رہنما روپوش ہیں۔ ذرائع کے مطابق اسد قیصر، پرویز خٹک اور سابق گورنر شاہ فرمان اور کئی سابق ایم پی ایز اور ایم این ایز آپس میں رابطے میں ہیں اوران کا ایک دوسرے کے ساتھ مکمل اتفاق ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے خلاف ممکنہ کارروائی کے بعد متفقہ اعلان کیا جائے گا۔
ذرائع کے بقول پیپلز پارٹی اور اے این پی کو امید تھی کہ تحریک انصاف کے ناراض رہنما اور جن کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے، وہ ان کے ساتھ مل جائیں گے۔ لیکن اب تک انہیں کامیابی نہیں ملی ہے۔ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما آزاد حیثیت میں انتخابات میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔