نواز طاہر :
پی ڈیم ایم کی حکومت ختم ہونے سے قبل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری اور ان کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ تاہم یہ اقدامات اتحادی حکومت کے خاتمے پر مشکلات کا باعث بھی بن سکتے ہیں، کہ عدلیہ مداخلت کرسکتی ہے۔ اسی سبب اتحادی حکومت اس ضمن میں شدید تحفظات کا شکار ہے اور پی ڈی ایم کی بڑی جماعت مسلم لیگ ’’ن‘‘ انتخابی عمل شروع ہونے سے پہلے سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی کی خواہاں ہے۔
واضح رہے کہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت عدلیہ کے ایک خاص حصے کو اپنا مخالف قرار دیتی ہے اور خطرہ محسوس کر رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں عدلیہ میں نون لیگ مخالف حصہ اسے شدید مسائل سے دوچار کر سکتا ہے۔ جس کے پیش نظر وہ ایسے تمام اقدامات میں پیش رفت کر رہی ہے۔ جس سے عدلیہ کی غیر جانبداری مکمل طور پر کھل کر سامنے آئے اور اس پر اٹھائے گئے اعتراض بھی عدالتی طریق کار کے مطابق واضح ہوسکیں۔
اس ضمن میں سپریم کورٹ سے بار بار مطالبہ کیا جارہا ہے کہ عدلیہ کے بعض اہم اراکین پر اعتراضات، الزامات اور شکایات کا ازالہ کیا جائے۔ جس کیلیے سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ریفرنس مزید موخر رکھنے کے بجائے ان پر فیصلے کیے جائیں۔
اس ضمن میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی عرفان قادر کا کہنا ہے کہ معزز عدلیہ پر انگشت نمائی کی سب سے بڑی وجہ خود عدلیہ ہی ہے۔ جس کے کچھ اقدامات اور رویے بادی النظر میں اور کچھ واضح طور پر عدلیہ کی غیر جانبداری اور وقار پر سوالیہ نشان ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عدالتی سیاسی تحرک کے بجائے عدلیہ کو ایسے اقدامات کرنا چاہئیں جن سے عوام کو جلد از جلد انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ غیر ضروری عدالتی تحرک کے پیش نظر ہی حکومت نے قانون سازی کی ہے۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ سیاسی حکومت تو بعض معاملات میں سیاسی مصلحت کا شکار اور برداشت کے رویے کے تحت درگزر کر سکتی ہے۔ لیکن نگران یا عبوری حکومت کی ایسی کوئی مجبوری نہیں ہوتی۔ اس لئے نگران حکومت میں صورتحال مختلف ہوسکتی ہے۔
جب ان سے یہ استفسار کیا گیا کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ جس طرح عدلیہ کے کچھ حصے کے بارے میں نشاندہی کرتی رہی۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے پی ڈی ایم اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد عدلیہ سے مزید شدید ردعمل یا سخت رویے اور اقدامات کی کیا توقع رکھتی ہے۔ اس وقت تو وہ قانون سازی کا حق اور پارلیمانی طاقت کا استعمال کر سکتی ہے۔ لیکن حکومت ختم ہونے کے بعد تو یہ اختیار ختم ہوجائے گا۔ نگران حکومت کے پاس بھی قانونی سازی کا اختیار نہیں ہوگا؟۔ اس پر وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ ’’اس حوالے سے اگرچہ ہمیں شدید تحفظات ہیں۔ تاہم نگران عبوری حکومت کا رویہ موجودہ سیاسی اتحادی حکومت جیسا نہیں ہوگا۔ عدلیہ اگر ہمارے انہی تحفظات کے مطابق ہی رویہ برقرار رکھتی ہے تو نگران حکومت اس سے نمٹ لے گی۔ جس نے سیاسی مصلحت کا شکار نہیں ہونا۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کواندھا دھند ضمانتیں مل رہی ہیں۔ لیکن وہ جلد ہی گرفتار ہوں گے۔ ان کا مقدمہ بھی ملٹری کورٹ میں چلے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ کرپشن کے مقدمات کے ٹرائل میں بھی پیش رفت ہو رہی ہے۔ عمران خان عیدالاضحیٰ سے قبل بھی گرفتار ہو سکتے ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں ان کے مواصلاتی خطاب رک جائیں گے۔ جس کے بعد مزید لوگ پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔ اور اسی دوران نواز شریف کی وطن واپسی سے نون لیگ مزید مستحکم اور پی ٹی آئی کا سحر مزید ٹوٹ سکتا ہے۔
ذمے دار ذرائع کے مطابق ان دنوں حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور کئی مقدمات ایسے ہیں جن کے فیصلے عدالت کسی اور کو ریلیف دینے کیلئے کرے گی تو نواز شریف کو بھی خودبخود ریلیف مل جائے گا اور تب تک قانون سازی کے تمام مراحل بھی تکمیل تک پہنچ جائیں گے۔ ذرائع کے بقول سابق وزیراعظم نواز شریف پی ڈی ایم کو متحد رکھ کر سیاسی عمل آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ لیکن حکومتی اتحاد میں شامل بعض جماعتوں کے بارے میں وہ پراعتماد نہیں۔ جبکہ بعض دیگر امور بھی وطن واپسی سے قبل غور طلب ہیں۔
ان ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف کے سامنے نگراں سیٹ اپ کیلئے کچھ نام بھی پیش کیے گئے ہیں۔ جس پر انہوں نے فی الحال خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اسے قبل از وقت قرار دے کر پارلیمانی امور تیزی سے نمٹانے پر توجہ مرکوز رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ انہی امور میں عدلیہ کے بارے میں معاملات بھی شامل ہیں۔ جن میں قابل ذکر ایشو زیر التوا یفرنسز ہیں۔ جس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے کوئی پیش رفت نہیں ہورہی۔
جبکہ یہ پیش رفت نہ ہونے پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی عرفان قادر کا کہنا ہے کہ عدلیہ نہ صرف اپنے فرائض کی انجام دہی سے پہلو تہی کر رہی ہے۔ بلکہ خود اپنے لئے بھی اچھا نہیں کر رہی اور ان وسوسوں کو بالواسطہ طور پر تقویت دے رہی ہے کہ عدالتی شخصیات کے بارے میں سارے الزامات یا ریفرنس درست ہیں۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی کے حلقوں میں یہ تاثر باقاعدہ مہم کی صورت میں پھیلایا جارہا ہے کہ عمران خان کی غیر سیاسی عناصر نے ڈیل کرادی ہے اور موجودہ حکومت کی مدت ختم ہوتے ہی نگران حکومت بننے پر حالات بتبدیل ہوجائیں گے۔ تاہم اس مہم کے باوجود پی ٹی آئی کے مختلف گروپ ’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی کے تحت خاموش ہیں۔
دریں اثنا تحقیقاتی اداروں کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی کرپشن اور اس میں معاونت کے ٹھوس ثبوت حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ وہ گرفتار ہوں گے اور انہیں مستقبل قریب میں اب تک جس طرح ریلیف مل رہا ہے۔ اس میں بھی کمی واقع ہوجائے گی۔