کاشف ہاشمی :
سانحہ 9 مئی کے بعد جہاں ایک طرف پی ٹی آئی کارکنان کی سندھ بھر میں قومی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات کے تحت گرفتاریاں شروع کی گئیں۔ وہیں پی ٹی آئی کے کچھ رہنمائوں کو سندھ حکومت کی عدم دلچسپی سے پورا موقع ملا کہ وہ بآسانی بلوچستان فرار ہوگئے اور اب بھی وہاں مختلف مقامات پر روپوش ہیں۔ جنہیں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں نے پناہ دے رکھی ہے۔
بہت سے کارکنان کو حراست میں لینے کے بعد کراچی پولیس کی جانب سے رہا بھی کیا گیا ہے۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو مختلف علاقوں سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر چئیرمین منتخب ہوئے۔ انہیں نامعلوم وجوہات کی بنا پر پہلے حراست میں لیا گیا اور پھر رہا کر دیا گیا۔ اس سارے معاملے کے بعد پی ٹی آئی کے تیس کے قریب چئیرمین، مئیر کراچی کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کیلئے آرٹس کونسل نہیں آئے۔ جس نے اس بات کو شہر کے سنجیدہ حلقوں میں تقویت دینا شروع کر دی کہ پیپلز پارٹی نے ووٹ نہ دینے کیلیے آنے والے پی ٹی آئی کے چئیرمینوں کو بھاری معاوضہ تو فراہم کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مستقبل میں انہیں گرفتار نہ کیے جانے اور کسی کیس میں نامزد نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔
واضح رہے کہ 9 مئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے عمران خان گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑی تھے۔ کراچی میں بھی پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے اپنے کارکنان اور ہمدروں کو اکسایا گیا۔ جس کے نتیجے میں شارع فیصل پر پی ٹی آئی کے شرپسندوں نے ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے اربوں مالیت کی املاک کو نقصان پہنچایا۔ شارع فیصل پر شرپسندوں کو ہدایت دینے والوں میں پی ٹی آئی کے رہنما راجہ اظہر اورحلیم عادل شیخ تھے۔ جبکہ شاہنواز جدون، سعید اعوان، آفتاب صدیقی، خرم شیر زمان، عالمگیر خان، فہیم خان، فردوس شمیم نقوی، ارسلان گھمن اور عدیل احمد بھی اپنے کارکنان کو اشتعال دلارہے تھے۔
شرپسندوں نے ہنگامہ آرائی کے دوران سرکاری و عوامی املاک کو آگ لگانے کیلئے خاص کیمکل استعمال کیا۔ جو ماضی میں ایم کیو ایم لندن کے دہشت گرد استعمال کیا کرتے تھے۔ سائوتھ اور ایسٹ زون کے دو پولیس افسران نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ کراچی میں پر تشدد مظاہرے کیے گئے اور شرپسندوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تنصیبات سمیت عوامی اور سرکاری املاک کو شدید نقصان پہنچایا۔ پرتشدد احتجاج کاسلسلہ 9 مئی کی شام ویسے تو کئی علاقوں میں شروع ہوا۔ مگر پولیس و رینجرز کے فوری اور موثر ایکشن کے باعث سہراب گوٹھ، ماڑی پور روڈ، فائیو اسٹار چورنگی، حسن اسکوائر اور نیشنل ہائی وے ملیر سمیت دیگر مقامات پر مظاہرین کو فوراً منتشر کردیا گیا۔ دیگر مقامات پر تو صورتحال بہتر رہی۔ مگر شہر کی مرکزی شاہراہ شارع فیصل پی ٹی آئی کارکنان کے احتجاج کے باعث میدان جنگ کا منظر پیش کرتی رہی۔
احتجاج کی آڑ میں شرپسندوں نے ہنگامہ آرائی شروع کی اور راجہ اظہر سمیت دیگر رہنمائوں کے احکامات پر سرکاری و نجی املاک کو بھی نشانے پر رکھ لیا۔ مشتعل افراد نے شہر کی مرکزی شاہراہ پر نصب کمانڈ اینڈ کنٹرول کے سی سی ٹی وی کیمروں کے ساتھ گرین بیلٹ کو نقصان پہنچایا۔ اسی پر بس نہ ہوئی تو بلوائیوں کی گرفتاری کی غرض سے لائی گئی قیدیوں کی وین کو نذر آتش کر دیا گیا۔ سڑک سے گزرنے والی متعدد گاڑیوں، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی دو سکشن اینڈ جیٹنگ وہیکلز کے ساتھ بلوچ کالونی فلائی اوور کے نیچے قائم ٹریفک سیکشن اور پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی پر واقع قانون نافذ کرنے والے ادارے کی چوکی کو بھی نذر آتش کیا گیا۔ جبکہ ٹریفک پولیس چوکی اور اطراف میں کھڑی شہریوں کی کئی موٹرسائیکلوں کو بھی آگ لگائی گئی۔
اس دوران پیپلز بس سروس کی جدید بسیں بھی شرپسندوں سے محفوظ نہ رہیں اور ان پر پتھرائو کرکے نقصان پہنچایا اور ایک بس کو آگ لگا دی۔ اسی روز ناگن چورنگی اور شاہ فیصل کالونی میں بھی دو پیپلز بسوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ 9 مئی کی شام شارع فیصل پر ہونے والی ہنگامہ آرائی اور پولیس اور شر پسندوں کے درمیان جھڑپیں رات گئے تک جاری رہیں۔
جبکہ دوسرے روز کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں بھی اسی طرح کی صورتحال دیکھنے میں آئی۔ جس کے بعد پولیس کی جانب سے سندھ حکومت کے احکامات پر صوبہ بھر میں آپریشن کا آغاز کیا گیا اور پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان میں تحریک انصاف کے کچھ رہنما بھی شامل تھے۔ مگر پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی کے لیڈر راجہ اظہر، حلیم عادل شیخ، شاہنواز جدون، سعید اعوان، آفتاب صدیقی، خرم شیر زمان، عالمگیرخان، فہیم خان، اور ارسلان گھمن کو تاحال گرفتار نہیں کیا جا سکا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پولیس اور متعلقہ ادارے مذکورہ رہنمائوں کی گرفتاری کیلئے چھاپے مار رہے ہیں اور لوکیٹر کے ذریعے بھی چھاپے مارنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر تاحال اسے کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ جب پولیس نے ان کے موبائل فون کی لوکیشن حاصل کرکے چھاپے مارے تو وہ موجود نہیں تھے، کہ انہوں نے نو مئی کے بعد سے اپنے موبائل فون استعمال کرنا چھوڑ دیئے تھے۔
پولیس کا دعوی ہے کہ فرار ہونے والے راجہ اظہر، حلیم عادل شیخ، شاہنواز جدون، سعید اعوان، آفتاب صدیقی، خرم شیر زمان، عالمگیر خان، فہیم خان اور ارسلان گھمن کسی اور شہر میں روپوشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما علی زیدی کو خصوصی رعایت حاصل ہے۔ علی زیدی کو جیل منتقل کرتے ہوئے اچانک ڈیفنس میں ان کی رہائش گاہ منتقل کردیا اور پھر ان کی رہائش گاہ کو ہی سب جیل قرار دے دیا گیا۔
اس صورتحال کے بعد کراچی میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں، عہدیداران اور کارکنان میں کھلبلی مچ گئی کہ سندھ حکومت پی ٹی آئی کے صرف ایک رہنما علی زیدی پر مہرباں کیوں ہے۔ علی زیدی سے متعلق چند اداروں سے رابطہ کرنے پر بتایا گیا کہ ان کی نو مئی کو ہونے والی گرفتاری نمائشی گرفتاری تھی۔ منصوبہ بندی کے تحت علی زیدی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ تاکہ انہیں ہنگامہ آرائی میں ملوث اپنے پارٹی رہنمائوں، عہدیداران اور کارکنان کے ساتھ کھڑا نہ ہونا پڑ جائے۔ علی زیدی کی نمائشی گرفتاری کے بعد جب انہیں کراچی کی جیل سے سندھ کی جیل منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس معاملے میں ایک اہم شخصیت اور علی زیدی کے مابین نامعلوم شرائط کے تحت ڈیل ہوئی اور پھر انہیں کراچی میں ان کے گھر ڈیفنس منتقل کر دیا گیا۔
اس وقت کراچی میں پی ٹی آئی کے تین سوسے زائد عہدیدار اور کارکنان گرفتار ہیں۔ جبکہ کراچی اور سندھ کی زیادہ تر قیادت روپوش ہے۔ تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسی اطلاعات موجود ہیں کہ پی ٹی آئی کے جو رہنما ابھی ہاتھ نہیں لگ سکے۔ وہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں روپوش ہوگئے ہیں اور ان میں سے کئی رہنمائوں کو بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی بھی مکمل مدد حاصل ہے۔ جنہوں نے ان رہنمائوں کو اس شرط پر پناہ دے رکھی ہے کہ اگر ان کی حکومت آتی ہے تو وہ اقتدار میں آکر بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے مفادات کی حفاظت کریں گے۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے جن 30 چئیرمینوں نے مئیر کراچی کے انتخابات میں شرکت نہیں کی۔ انہیں سندھ حکومت کی جانب سے بھاری رقوم فراہم کی گئی ہیں اور ساتھ ہی انہیں یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ اگر وہ انتخابات میں اپنا ووٹ نہیں ڈالتے ہیں تو انہیں نہ تو گرفتار کیا جائے گا اور نہ کسی مقدمے میں نامزد کیا جائے گا۔ جس کے بعد ہی سندھ حکومت کراچی میں اپنا مئیر لانے میں کامیاب ہوئی۔
ڈسٹرکٹ ایسٹ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ نو مئی کے بعد پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی کے خلاف جو آپریشن شروع کیا گیا۔ وہ اعلی افسران کے حکم پر روک دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے جن افراد کو پولیس نے ایم پی او کے تحت گرفتارکیا تھا۔ ان میں چند افراد کو رہا کردیا گیا ہے۔ جبکہ اب چھاپے بھی روک دیئے گئے ہیں۔ خیال رہے کہ نو مئی کو سب سے زیادہ ہنگامہ آرائی شارع فیصل پر کی گئی تھی۔ جلائو گھیرائو اور املاک کو نقصان پہنچانے والے پی ٹی آئی رہنمائوں اور کارکنان پر فیروز آباد اور ٹیپوسلطان تھانے میں مقدمات درج ہوئے تھے۔
پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیجز اور موبائل فونز کی ویڈیوز کی مدد سے 70 عہدیداروں اور کارکنان کو گرفتار کیا تھا۔ جنہیں بعد ازاں جیل منتقل کردیا گیا۔ پولیس افسر کے مطابق آئی جی سندھ اور کراچی پولیس کے احکامات کے بعد شہر بھر میں کیے جانے والے پی ٹی آئی کے عہدیداران اور کارکنان کے خلاف آپریشن پالیسی کے تحت روکا گیا ہے۔ جبکہ اہم رہنما جو مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں۔ ان کی گرفتاری کیلئے بھی روک دیا گیا ہے۔ پولیس افسر کے مطابق حلیم عادل شیخ، راجہ اظہر اور دیگر رہنما مفرور ہیں۔ اگر ان کی روپوشی کا ٹھکانہ معلوم ہوجائے تو اعلیٰ افسران کے علم میں لائے بغیر گرفتار نہیں کیا جائے۔