احمد خلیل جازم :
عمران خان کے کئی قریبی ساتھی سلطانی گواہ بننے کو تیار ہیں۔ ذرائع کے مطابق پارٹی چیئرمین کے خلاف گواہی دینے کو تیار رہنما اس انتظار میں ہیں کہ پارٹی قیادت شاہ محمود قریشی کے ہاتھ آجائے۔ جبکہ عمران خان بھی یہ بات جانتے ہیں کہ وقت پڑنے پر ان کے ماضی کے قریبی ساتھی ان کے خلاف گواہی دیں گے۔
دوسری جانب ذرائع کے مطابق اسد عمر اس کوشش میں ہیں کہ عمران خان فی الحال پارٹی چیئرمین شپ سے الگ ہوجائیں اور پارٹی شاہ محمود قریشی کے حوالے کردیں۔ لیکن عمران خان نے اسد عمر کی اس خواہش کا فی الحال کوئی جواب نہیں دیا۔
ذرائع نے یہ بات بھی کنفرم کی ہے کہ اسد عمر نے یہ واضح پیغام عمران خان کو دیا ہے کہ اگر موجودہ سیاسی اور انفرادی مشکلات سے نکلنا ہے تو پھر پارٹی قیادت چھوڑنی ہوگی۔ کیوں کہ عمران خان پر جس طرح کے الزامات ہیں۔ ان سے انہیں مفر حاصل نہیں ہو سکتا۔ ابھی تو عدالتیں ان کے حق میں ضمانتیں دیئے جارہی ہیں۔ لیکن تابکہ؟ بعض کیس اتنے مضبوط اور واضح ہیں کہ ان میں عمران خان کی گرفتاری سمیت نا اہلی روکنا ممکن نہیں ہے۔ بس ایک ہی صورت بچتی ہے کہ وہ اس وقت خاموش ہوکر صرف مقدمات سے کلیئر ہونے کا انتظار کریں۔ کیوں کہ نو مئی کے واقعات میں سلطانی گواہان صرف کارکنان ہی نہیں، بلکہ عمران خان کے قریبی سیاسی ساتھی بھی بن جائیں گے۔ یہ صورت حال عمران خان کے لیے کافی مشکلات پیدا کردے گی۔
تحریک انصاف اور اسد عمر کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ اسد عمر نے عمران خان پر واضح کردیا ہے کہ ماضی میں ان کے قریبی ساتھی جو حکومتی عہدوں اور وزارتوں کے مزے لوٹتے رہے ہیں، انہوں نے عمران خان کے خلاف نومئی کے واقعات میں سلطانی گواہ بننے سے دریغ نہیں کرنا۔ اس طرح عمران خان نہ صرف جیل جائیں گے، بلکہ نا اہل بھی ہوں گے۔ اور جیل بھی لمبے عرصے کے لیے ہوسکتی ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ وہ پارٹی کمان شاہ محمود قریشی کے سپرد کردیں۔ جب کہ عمران خان یہ مشورہ ماننے کو تیار نہیں۔ کیوں کہ وہ شاہ محمود کے حق میں بالکل نہیں۔
ان کے بعض قریبی لوگوںنے کان بھرے ہیں کہ شاہ محمود قریشی اسٹبلشمنٹ کے نمائندہ ہیں۔ اور پی ٹی آئی کی قیادت ان کے ہاتھ آتے ہی عمران خان ہمیشہ کے لیے تحریک انصاف سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ جب کہ پارٹی قیادت چھوڑنے کے باوجود ان کے گرد گھیرا مزید تنگ کردیا جائے گا۔ لہٰذا وہ پارٹی کمان شاہ محمود کو ہرگز نہ دیں۔
واضح رہے کہ اسد عمر نو مئی سے قبل بھی بعض باتوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے اور پارٹی میں کچھ معاملات پر اختلاف کرتے رہے۔ اب بھی ان کی وہی پوزیشن ہے وہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح تحریک انصاف اس مشکل وقت سے نکل جائے۔ اور ان کا فارمولا یہی ہے کہ عمران خان بعض باتوں سے دستبردار ہوکر خاموش ہوجائیں۔ تاکہ حالات نارمل ہوں۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسد عمر کے بیانات میں بہت زیادہ ابہام ہے۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ وہ اس وقت کیا پوزیشن لیں۔ ان کا دل عمران خان کے ساتھ اس لیے دھڑکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے بغیر وہ الیکشن نہیں جیت سکتے۔ لیکن دماغ کہتا ہے کہ عمران خان کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان ان کی سمجھ کے مطابق چلیں۔
ایک جانب وہ چیئرمین تحریک انصاف کے فیصلوں کے خلاف بات کرتے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری جانب پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا عندیہ بھی دے رہے ہیں۔ جس وقت پارٹی پر دبائو تھا اور لوگ پارٹی چھوڑ رہے تھے، اس وقت پارٹی عہدے سے استعفیٰ دینا کیا معنی رکھتا ہے؟ اگر انہیں اتنا ہی اختلاف تھا تو وہ نو مئی سے قبل استعفیٰ پیش کردیتے۔ اس وقت ان کی بات میں وزن بھی ہوتا۔
ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے علاوہ کسی ٹکٹ پر الیکشن نہیں لڑیں گے۔ مگر فی الحال عمران خان کا اسد عمر کو ٹکٹ دینے کا قطعی ارادہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ ان سے سخت ناراض ہیں۔ ٹکٹ تو کجا وہ ان کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ جس طرح کی گفتگو اسد عمر کررہے ہیں عمران خان کو یقین ہے کہ جب ان کے خلاف گواہی دینے کا وقت آیا تو اسد عمر سب سے آگے ہوں گے۔