فائل فوٹو
فائل فوٹو

سویلین کا فوجی ٹرائل،جسٹس فائز، جسٹس طارق 9 رکنی بینچ سے علیحدہ ہو گئے

اسلام آباد: سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر بنایا گیا نو رکنی بینچ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق کے علیحدہ ہونے سے ٹوٹ گیا، فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ نہیں ہوتا میں اس بنچ کو کورٹ ہی نہیں مانتا۔

چیف جسٹس نے بنچ ٹوٹنے پر نیا بینچ تشکیل دے دیا ہے جو کہ سات رکنی ہے، سویلین شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت اب ڈیڑھ بجے ہوگی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائلز کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

لارجر بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھے۔

چیف جسٹس نے وکلا سے کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی،  بنچ میں موجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں کچھ آبزرویشن دینا چاہتا ہوں۔

فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں خوشی کا اظہار تو کرنے دیں.

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ خوشی کا اظہار باہر کر سکتے ہیں یہ کوئی سیاسی فورم نہیں، حلف کے مطابق میں آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کروں گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قوانین میں ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر بھی ہے، اس قانون کے مطابق بینچ کی تشکیل ایک میٹنگ سے ہونی ہے، کل شام مجھے کاز لسٹ دیکھ کر تعجب ہوا، اس قانون کو بل کی سطح پر ہی روک دیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ 5 مارچ 2023ء کو نہ بل آیا تھا نہ ہی ایکٹ بنا تھا، مجھے تعجب ،دکھ اور صدمہ ہوا، 31 مارچ کو رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی نے سرکلر جاری کیا، رجسٹرار سپریم کورٹ کا سرکلر جاری کرنا سپریم کورٹ کی وقعت کو ظاہر کرتا ہے، سپریم کورٹ 15 مارچ کو میرا فیصلہ واپس لے لیتی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں اپنی دانست اور عقل کے مطابق بات کروں گا، جب ایک بینچ کا حصہ نہیں تھا تو مجھے کیوں شامل کیا گیا؟میں نے ایک نوٹ لکھا جو 8 اپریل کو ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بھی پاکستان کا قانون ہے، میں نے ہر نوٹ اپنے ساتھی سے شیئر کیا، ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا، انکوائری کمیشن کو پانچ رکنی بینچ نے کام سے روک دیا، انکوائری کمیشن کو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا نہ جواب مانگا گیا۔

قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں کسی فیصلے پر رائے نہیں دے رہا، 4 درخواستیں دائر کی گئیں، چیئرمین پی ٹی آئی کی پہلی درخواست تھی جس پر اعتراض لگا، میں آج اس بینچ سے علیحدہ ہورہا ہوں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ نہیں ہوتا میں اس بنچ کو کورٹ ہی نہیں مانتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری رائے کو یہ نہ سمجھا جائے کہ میں نے کیس سننے سے انکار کر دیا، میرا موقف ہے کہ پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ کیا جائے۔

قاضی فائز عیسی کے بنچ سے علیحدہ ہونے کے بعد جسٹس طارق نے بھی ان سے اتفاق کیا اور بنچ سے علیحدہ ہوگئے۔ جسٹس طارق نے کہا کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجربل پر فیصلہ نہیں ہوتا بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا، میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب سے اتفاق کرتا ہوں، اگر کل قانون درست قرار دے دیا گیا تو پھر اپیل کا کیا ہوگا؟

دو ججز کے علیحدہ ہونے سے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا۔

ججز کے علیحدہ ہونے پر بنچ اٹھنے لگا جس پر ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ  لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں، چیف جسٹس صاحب اور دیگر ججز سے گزارش ہے بیٹھے رہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی اس معاملے کا کچھ کرتے ہیں، یہ کہہ کر تمام ججز چلے گئے۔

وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ گھر کا تنازعہ ہے جبکہ باہر سے لوگ حملہ آور ہو رہے ہیں۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اعتزاز احسن سے کہا کہ اعتزاز احسن صاحب پلیز! میں آپ کا احترام کرتا ہوں، مہربانی فرما کر سپریم کورٹ کو گھر نہ کہیں، یہ سپریم کورٹ آئینی ادارہ ہے گھر نہیں۔

ججز کے علیحدہ ہونے پر چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے دونوں معزز جج صاحبان کا مکمل احترام ہے، میرے دل میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود سمیت تمام ججز کے لیے عزت و احترام ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ خیر کرے گا انشاءاللہ ، دعا ہے جو بھی فیصلہ آئے حق اور انصاف کے مطابق ہو، دعا ہے جو بھی فیصلہ آئے وہ لوگوں کیلیے بہتر ہو، ہم اسے دیکھتے ہیں۔

سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ 25 کروڑ عوام کا معاملہ ہے، پچیس کروڑ عوام کہاں جائے گی؟ اس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ جب پہلے سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا تھا اس وقت آپ کہاں تھے؟ جب پچیس کروڑ عوام کا کیس آئے گا پھر دیکھیں گے۔

واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، اعتزاز احسن اور شہری کرامت علی سمیت دیگر نے سویلین کے ملٹری ٹرائل کو چیلنج کیا تھا۔