امت رپورٹ:
اس وقت سب سے زیادہ زیر بحث سوال یہی ہے کہ 9 مئی کو فوجی املاک پر حملہ کرنے والوں اور ان کے منصوبہ سازوں کے خلاف فوجی ٹرائل کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوششوں میں جو کہانی سامنے آئی ہے۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ سول اور عسکری قیادت نے فوجی املاک پر حملوں میں ملوث کرداروں کے خلاف ملٹری ٹرائل کا فیصلہ اس لیے کیا کہ مقدمات کو تیزی کے ساتھ موثر طریقے سے نمٹایا جاسکے۔ جبکہ سول نظام انصاف میں موجود خامیوں کے سبب ان گھنائونے جرائم میں ملوث افراد کے بچ نکلنے کا خدشہ تھا۔ دوسری جانب اس سانحہ میں ملوث ذمے داروں کو سزائوں سے بچانے کا ایک پورا پلان تشکیل دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں فوجی ٹرائل کے خلاف درخواستیں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔
پہلے اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ 9 مئی کے ذمہ داران میں سے بعض کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ اس حوالے سے جب باخبر ذرائع سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا ’’اس کا بنیادی سبب ہمارے کرمنل جسٹس سسٹم (نظام انصاف) میں موجود خامیاں ہیں۔ جو ملزمان کو بچ نکلنے کے راستے فراہم کرتی ہیں اور متاثرین کو انصاف سے محروم رکھنے کا موجب بنتی ہیں۔ بدقسمتی سے کسی بھی حکومت نے عدالتی اصلاحات کرکے کرمنل جسٹس سسٹم کو بہتر نہیں بنایا۔ پاکستان کے موجودہ کرمنل جسٹس سسٹم (سویلین نظام انصاف) کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ متاثرین کو فوری اور مساوی انصاف کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
واضح رہے کہ 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے متاثرہ فریق ملک کی مسلح افواج ہیں۔ جن کی املاک کو شرپسندوں نے نشانہ بنایا اور شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کی۔ سول نظام انصاف کی خامیوں میں بدانتظامی، وسائل کی کمی، کرپشن اور طاقت ور کے لئے رعایت بھی نمایاں ہے۔ اس کے نتیجے میں عموماً غیر منصفانہ فیصلے ہوتے ہیں۔ مقدمات کے فیصلے میں بے انتہا تاخیر بھی معمول ہے۔ جو عموماً ججوں، پراسیکیوٹرز اور ٹیکنالوجی کی کمی کے سبب ہوتی ہے۔ ججز عام طور پر مقبول سیاسی افراد پر دست شفقت رکھتے دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ عام شہری کو ان ہی عدالتوں کی جانب سے سخت سزائوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پولیس، پراسیکیوٹرز اور ججوں پر رشوت لینے، شواہد تبدیل کرنے اور بااثر افراد کو رعایت دینے کے الزامات عام ہیں۔ ایک اور تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ ملک کا عدالتی نظام انصاف، گواہوں اور متاثرین کو مناسب تحفظ فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ چنانچہ بااثر ملزمان کے خلاف گواہی دینے سے گریز کیا جاتا ہے اور اس کا سارا فائدہ ملزم کو پہنچتا ہے۔
قصہ مختصر کسی سول کورٹ میں ملزم کے بچ نکلنے کی حد سے زیادہ گنجائش موجود ہے۔ عموماً ملزم کو شک کا فائدہ دے دیا جاتا ہے۔ پولیس تفتیش اور کمزور پراسیکیوشن بھی ملزم کے بچ نکلنے کا سبب بنتی ہے۔ ان تمام عوامل کو پیش نظر رکھ کر ہی 9 مئی کے واقعات کے دوران فوجی املاک پر حملہ کرنے والوں، منصوبہ سازوں اور اکسانے والوں کے خلاف ملٹری ٹرائل کا فیصلہ کیا گیا۔ کیونکہ انصاف کی جلد اور یقینی فراہمی کے لئے فوجی عدالتیں موزوں ترین فورم ہے‘‘۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ ’’اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سانحہ 9 مئی میں ملوث کرداروں کی سزا کو ہر حال میں یقینی بنانا کیوں ضروری ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ تجزیہ نگار اسے پاکستان کا نائن الیون قرار دیتے ہیں۔ اس واقعہ نے قومی سلامتی، ملکی معیشت اور عالمی برادری میں پاکستان کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ حتیٰ کہ اس واقعہ نے ہمارے اندرونی و بیرونی دشمنوں کو ہمارے جوہری اثاثوں کی حفاظت سے متعلق سوالات اٹھانے کا موقع فراہم کیا۔
لہٰذا یہ معاملہ سراسر قومی سلامتی سے جڑا ہے۔ دنیا کا کون سا ملک ہے جو اس طرح کے گھنائونے جرائم میں ملوث کرداروں کو انسانی حقوق کے نام پر بچ نکلنے کا موقع فراہم کرے؟ فوجی ٹرائل کے پیچھے یہ سوچ بھی کارفرما ہے کہ اگر ان کرداروں کو قانون کے ذریعے کیفر کردار تک نہ پہنچایا گیا تو شرپسندوں کو حوصلہ ملے گا اور مستقبل میں اس نوعیت کے مزید حملوں کی راہ ہموار ہوگی‘‘۔
بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے واویلا کے بارے میں ذرائع نے بتایا کہ فوجی املاک کو نشانہ بنانے والوں کے مقدمات ملٹری کورٹس میں چلانے کے معاملے پر اتفاق رائے سے پہلے سول اور عسکری قیادت نے اس کے تمام قانونی پہلوئوں کا جائزہ لیا تھا۔ دونوں قیادتوں نے دستیاب شواہد کی روشنی میں فیصلہ کیا کہ سانحہ 9 مئی میں ملوث منصوبہ سازوں، اکسانے والوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں اور حملہ آوروں کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کیا جائے۔ جو آئین سے ہی اخذ کردہ ایک قانونی طریقہ کار ہے۔ لہٰذا فوجی ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینا سراسر پروپیگنڈا ہے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کہتا ہے کہ اگر کوئی شہری فوجی اہلکاروں یا فوجی املاک پر حملوں میں ملوث ہو تو اس پر ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر جب سول عدالتیں بروقت ٹرائل کو یقینی بنانے میں قاصر دکھائی دیں تو حکومت اس مقصد کے لئے ملٹری کورٹس کو استعمال کرسکتی ہے۔ کیونکہ ملٹری کورٹس مقدمات کو تیزی کے ساتھ اور موثر طریقے سے نمٹانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ دنیا بھر میں عام شہریوں کے خلاف دہشت گردی یا دیگر جرائم جو ملکی سلامتی کے لئے خطرہ ہوں۔ ان کے لئے فوجی عدالتوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ کہنا بھی غلط ہے کہ آرمی ایکٹ آئین سے متصادم ہے۔ آرمی ایکٹ کو کچھ ترامیم کے بعد انیس سو تہتر کے آئین کا حصہ بنایا گیا تھا۔ اگر یہ قانون غلط تھا تو پہلے کیوں نہیں ختم کیا گیا۔ اب اس پر کیوں واویلا کیا جارہا ہے۔ جہاں تک ملزم کے بنیادی حقوق کا تعلق ہے تو ملٹری کورٹ میں مقدمہ کا سامنا کرنے والے ملزم کو ثبوت کی فراہمی، پسند کے وکیل اور اپیل سمیت دیگر تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں‘‘۔
ادھر معلوم ہوا ہے کہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت پی ٹی آئی نے پہلے اپنی سوشل میڈیا ٹیم اور پارٹی ہمدردوں کے ذریعے فوجی ٹرائل کے خلاف سوشل میڈیا پر منظم کمپین چلائی۔ پھر بنیادی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کے ذریعے عدالت میں پٹیشنز دائر کروائیں۔ ذرائع نے بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایت پر سوشل میڈیا کمپین کو شکاگو میں مقیم پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور سائبر سیکورٹی کا ماہر جبران الیاس نے لیڈ کیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عمران خان کے ٹوئٹر اکائونٹ کو بھی جبران الیاس ہینڈل کرتا ہے۔
دوسری جانب ایک طے شدہ پلان کے تحت نہ صرف عمران خان نے خود بلکہ ان کی ہدایت پر پارٹی کے بچے کھچے رہنمائوں و عہدیداران کے علاوہ سوشل میڈیا ٹیم نے تسلسل سے یہ جھوٹا پروپیگنڈا شروع کیا کہ 9 مئی کے واقعات میں پارٹی کے لوگ ملوث نہیں تھے۔ بلکہ یہ ایک ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘ تھا۔ ذرائع کے مطابق فوجی ٹرائل کے خلاف منظم پروپیگنڈا کرکے سزائوں سے بچنے کے لئے پلان کا دوسرا مرحلہ پارٹی کے ہمدرد نام نہاد سول سوسائٹی نمائندوں اور وکلا کو میدان میں اتارا گیا۔
اس حوالے سے زمان پارک میں عمران خان سے ملاقاتوں میں طے پایا کہ فوجی ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی جائیں گی۔ دلچسپ امر ہے کہ عدالت عظمیٰ میں فوجی ٹرائل کے خلاف دائر پٹیشنرز میں سوائے ایک کے باقی تمام چیئرمین پی ٹی آئی کے متوالے ہیں۔ ذرائع کے بقول ان میں سے بعض کو مستقبل میں پارٹی میں اعلیٰ عہدوں کا لالچ بھی دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں یہ عام تاثر ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ میں دائر درخواستیں ’’پراکسی‘‘ ہیں۔ جو عمران خان کی ایما پر دائر کی گئیں اور اسے سن بھی ایسے ججز رہے ہیں، جن میں سے اکثریت کو پی ٹی آئی کا ہمدرد تصور کیا جاتا ہے۔