اسلام آباد (امت نیوز) ملٹری کورٹس میں سویلین ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ روز کی سماعت پر جوڈیشل نوٹ تحریر کر دیا ، نوٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں بنچ تشکیل پر سینر ججز سے مشاورت کی جاتی ہے، جب سےعمرعطاءبندیال چیف جسٹس بنےاس روایت کوترک کردیاہے، چیف جسٹس عمرعطاءبندیال نےاپنےدورمیں ایک مرتبہ بھی فل کورٹ میٹنگ نہیں بلائی، دیگرججزکی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے نوٹ میں لکھا گیا کہ 21 جون 2023ء کو تقریباً 8 بجے شام مجھے میری رہائش گاہ پر سپلیمنٹری کاز لسٹ 2023/316 موصول ہوئی جس میں ظاہر کیا گیا تھا کہ 9 جز پر مشتمل ایک لارجر بینچ – 1 تشکیل دیا گیا ہے جس میں مجھے بھی شامل کیا گیا ہے اور 4 آئینی درخواستوں کی سماعت کے لیے 22 جون 2023ء کو 11:45 بجے دن کا وقت مقرر کیا گیا ہے، یعنی درخواستوں کو پڑھنے کے لیے مناسب موقع نہیں دیا گیا۔ یہ نیکی میرے اور سینئر جج جسٹس سردار طارق مسعود کے ساتھ مشاورت کے بغیر بنایا گیا ہے۔
تحریری نوٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ بات غور طلب ہے کہ جو آئینی در خواست سب سے پہلے (25 مئی 2023ء کو دائر کی گئی تھی، وہ آخر میں لگائی گئی اور ان کے بعد بتدریج آنے والی درخواستیں بھی بعد میں لگائی گئیں لیکن سب سے آخری درخواست جو 20 جون 2023ء کو دائر کی گئی، اس کو ترجیح بھی دی گئی اور ترتیب میں پہلا نمبر بھی دیا گیا۔ اس بات پر بھی تعجب ہوا کہ اگر یہ مقدمات اہم ہیں، تو پھر موسم گرما کی چھٹیاں شروع ہونے کا انتظار کیوں کیا گیا اور اچانک صرف ایک دن پہلے شام ہی کو ان مقدمات کی پیپر بک کیوں ارسال کی گئی؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مطابق عدالت عظمیٰ اور تمام عدالتوں کو اختیار آئین کی دفعہ (2)175 دیتی ہے جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے:کسی عدالت کو کوئی اختیار سماعت نہیں ہو گا سوائے اس کے جو آئین یا قانون کے تحت اسے دیا گیا ہے۔اپنا آئینی منصب سنبھالنے سے پہلے تمام پیج آئین پاکستان کے تیسرے جدول میں دیا گیا حلف اٹھاتے ہیں اور یہ حلف لازم کرتا ہے کہ وہ آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان اور قانون کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دیں گے۔
تحریری نوٹ کے مطابق ملکی قوانین میں سپریم کورٹ ( پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023ء بھی شامل ہے جو بذریعہ دفعہ 2(1) اور (2) لازم کرتا ہے (اردو ترجمہ): (1) ہر مقدمہ ، انیل اور معاملہ جو عدالت عظمی کے سامنے ہے، اس کی سماعت اور فیصلہ ایسا نہ کرے گا جس کی تقلیل چیف جسٹس پاکستان اور سینیارٹی کی ترتیب میں اگلے دو سب سے سینیٹر چوں پر مشتمل کمیٹی نے کی ہو۔ (2) اس قانون کے اجرا کے فورا بعد ذیلی دفعہ (1) کے تحت بنائی گئی کمیٹی اپنا پہلا اجلاس کرے گی اور اپنے لیے ضابطہ کار تشکیل دے گی، بشمول اس کے کہ کمیٹی کے اجلاس کب ہوں اور بینچوں کی تشکیل کیسے ہو ۔