اسلام آباد(نیٹ نیوز)قومی اسمبلی نے9ترامیم کے ساتھ مالی سال 24 -2023 کا وفاقی بجٹ منظور کر لیا۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطالبے پر ٹیکس کا ہدف 215 ارب روپے بڑھا کر 94 کھرب 15 ار ب روپے کرنے کے بعد قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 24-2023 کیلئے 14 ہزار 480 ارب روپے کا وفاقی بجٹ کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
خیال رہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے 9 جون کو پیش کردہ وفاقی بجٹ میں متعدد تبدیلیاں کی تھیں جن کے بارے میں گزشتہ روز وزیر خزانہ نے ایوان کو آگاہ کیا تھا۔ اتوار کو چھٹی کے روز قومی اسمبلی میں فنانس بل کی منظوری کیلئےاجلاس منعقد کیا گیا، سپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت اجلاس کے دوران فنانس بل میں کُل 9 ترامیم کی گئی ہیں، ان میں سے 8 ترامیم حکومت، ایک اپوزیشن کی جانب سے شامل کی گئی ۔ٹیکس وصولیوں کا ہدف 9 ہزار 200 سے بڑھا کر 9 ہزار 415 ارب مقرر کردیا گیا ہے، پنشن ادائیگی 761 ارب سے بڑھا کر 801 ارب کر دی گئی، علاوہ ازیں این ایف سی کے تحت صوبوں کو 5 ہزار 276 ارب کے بجائے 5 ہزار 390 ارب ملیں گے۔جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے فنانس بل اسلامی نظریاتی کونسل کو اسلامی پیمانے پر جانچنے کیلئے بھیجنے کا مطالبہ کیا۔
تاہم چترالی کے سوا تمام حکومتی و اپوزیشن اراکین قومی اسمبلی نے فنانس بل میں سود شامل ہونے کی وجہ سے اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے لینے کی مخالفت کر دی۔دریں اثنا مولانا عبدالاکبر چترالی کی جانب سے پیش کی گئی ترمیم منظور کر لی گئی جس کے تحت چیئرمین قائمہ کمیٹی کو 1200 سی سی گاڑی استعمال کرنے کا اختیار ہوگا۔خیال رہے کہ اس سے پہلے 1300 سی سی سے 1600 سی سی گاڑی استعمال کرنے کی اجازت تھی۔دریں اثنا وزیر خزانہ نے پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی آرڈیننس میں ترمیم پیش کی جو کہ قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے ترمیم منظور کرلی۔ترمیم کے تحت پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کی حد 50 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 60 روپے فی لیٹر کردی گئی، وفاقی حکومت کو 60 روپے فی لیٹر تک لیوی عائد کرنے کا اختیار ہوگا۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے فنانس بل کی شق 3 میں ترمیم پیش کی جو کہ قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے منظور کرلی۔
ترمیم کے مطابق 3200 ارب روپے کے زیر التوا 62 ہزار کیسز سمیت تنازعات کے حل کیلئے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، کمیٹی کے فیصلے کے خلاف ایف بی آر اپیل دائر نہیں کرسکے گا، متاثرہ فریق کو عدالت سے رجوع کرنے کا اختیار ہوگا۔پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پنکھوں اور بلبوں پر اضافی ٹیکسوں کی ترمیم بھی منظور کرلی گئی۔پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پنکھوں پر یکم جنوری سے 2 ہزار روپے ٹیکس ہوگا جبکہ پرانے بلبوں پر یکم جنوری سے 20 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔فنانس بل میں مزید ترامیم کے تحت 215 ارب کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔ بجٹ دستاویز کے مطابق سالانہ 24 لاکھ روپے تک آمدن پر انکم ٹیکس 20 سے بڑھا کر 22.5 فیصد کردیا گیا۔سالانہ 24 لاکھ آمدن پر ایک لاکھ 65 ہزار روپے فکس انکم ٹیکس بھی عائد ہوگا۔سالانہ 36 لاکھ روپے تک آمدن پر انکم ٹیکس 25 فیصد سے بڑھا کر 27.5 فیصد کردیا گیا، دستاویز کے مطابق سالانہ 36 لاکھ روپے تک آمدن پر 4لاکھ 35 ہزار روپے فکس انکم ٹیکس بھی عائد ہوگا۔سالانہ 60 لاکھ سے زائد آمدن پر انکم ٹیکس 32.5 سے بڑھا کر 35 فیصد کردیا گیا۔سالانہ 60 لاکھ سے زائد آمدن پر 10 لاکھ 95 ہزار روپے فکس انکم ٹیکس بھی عائد ہوگا۔ دریں اثنا قومی اسمبلی نے فنانس بل 2023 کی کثرت رائے سے منظوری دے دی۔
علاوہ ازیں اجلاس کے دوران ایوان نے مالی سال 22-2021 اور 23-2022 کیلئے 1581 ارب 74 کروڑ روپے کی ضمنی گرانٹس کی منظوری بھی دے دی۔وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی کے عملے اور اس کے اجلاس پر متعین دیگر محکموں کے اہلکاروں کیلئے 3 ماہ کی بنیادی تنخواہ کے برابر اعزازیے کا بھی اعلان کیا۔اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی خورشید شاہ نے کہا کہ 2 پنشنز پر پابندی لگائی گئی یہ اچھا اقدام ہے، دنیا چاہتی ہے پاکستان ایگریکلچر ملک ہے یہ تباہ ہو جائے۔اسحاق ڈار نے جواب دیا کہ زراعت کے شعبے سے ہمارا بھی اتنا ہی مفاد جڑا ہے جتنا کسی اور کا ہے، میری بھی یہی ترجیح ہے لیکن کبھی ملک کی ترقی کیلئے چند اقدام اٹھانے پڑیں تو یہ بھی ضروری ہے، بجٹ کے بعد ساتھ بیٹھ کر اس کا حل نکال لیں گے۔انہوں نے کہا کہ پنشن اصلاحات جیسی دیگر اصلاحات کی ہمیں اشد ضرورت ہے، اس بجٹ میں ہمارا 800 ارب پنشن پر چلا گیا، یہ ایک خطیر رقم ہے، چند برس قبل یہ اس سے آدھا ہوتا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اصلاحات کی طرف جانا ہوگا ورنہ ایک وقت آئے گا جب یہ بوجھ ناقابل برداشت ہوجائے گا۔ڈار نے کہا کہ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے سرکاری ملازمین کو 2 پنشنز میں سے بڑی پنشن کا انتخاب کرنے کا اختیار ہوگا ۔ حکومت نے سرکاری افسران کے ایک سے زائد پنشنز لینے پر پابندی عائد کردی ہے، یہ غریب ملک پر بہت بڑا بوجھ تھا، گریڈ 17 سے نیچے والے ملازمین کیلئے یہ شرط لاگو نہیں، گریڈ 17 سےاوپر والے ملازمین کو ایک پنشن لینا ہوگی۔وزیرخزانہ نے مزید کہا کہ اصولی بات ہے کہ آپ کو ایک پنشن ضرور ملنی چاہیے لیکن یہاں مختلف سرکاری عہدوں پر رہنے والے لوگ ایک سے زیادہ پنشنز لیتے رہے ہیں، یہ پنشنز کئی کئی نسلوں تک چلتی رہیں، ملک میں بعض لوگ بیک وقت آرمی چیف، صدر اور چیف ایگزیکٹو کی پنشن لیتے رہے۔