کراچی(امت نیوز) ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان میں نشے کی عادت بڑھتی جا رہی ہے جس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اس تیزی سے پھیلتی نشے کی عادات کو نہ روکا گیا تو آگے تباہی ہے۔ورلڈ ڈرگ رپورٹ 2022 کے مطابق سال 2020 کے دوران دنیا میں نشہ استعمال کرنے والوں کی تعداد 284 ملین (یعنی 28 کروڑ 40 لاکھ) ہے۔ یہ باتیں انہوں نے ڈاؤ میڈیکل کالج کے معین آڈیٹوریم میں شعبہ سائیکاٹری کے زیر اہتمام عالمی یوم انسداد منشیات کے موقع پر منعقدہ آگاہی سیمینار سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہیں،میڈیکل کالج کی پرنسپل پروفیسرصباء سہیل، ڈاکٹر برگیڈیئر(ر) شعیب احمد،ڈاکٹر وش دیو، ڈاکٹر عائشہ ثروت، ڈاکٹر جاوید اکبر درس، عظمی علی، ڈاکٹر عروسہ طالب، ڈاکٹر برگیڈیئر (ر)رمضان مہر، ڈاکٹر ندیم اقبال، ڈاکٹر اجمل مغل،ڈاکٹر کرن بشیر، ڈاکٹر ماجد علی عابدی، ڈاکٹر امیت کمار، ڈاکٹر نعیم صدیقی، ڈاکٹر زیب النساء اور ڈاکٹر چنی لال نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر سول اسپتال کراچی سے پروفیسر نواز لاشاری، سائیکاٹری ڈپارٹمنٹ کے ریزیڈنٹ ڈاکٹرز ، طلباء و اساتذہ کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
پروفیسر محمد سعید قریشی نے مزید کہا کہ ایک عشرے پہلے 2012-2013 میں اقوام متحدہ کے انسداد ڈرگ آفس (UNODC) کے اشتراک سےپاکستان میں کیے جانے والے قومی سروے میں معلوم ہوا تھا کہ ہمارے 67 لاکھ لوگ یعنی 9 فیصد تمباکو اور الکوحل سمیت دیگر نشے کی عادات میں مبتلا تھے، ان میں 6 فیصد بالغ مرد اور 2.9 فیصد خواتین شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں کینابس ( چرس، گانجا، بھنگ وغیرہ) ایمپھیٹامائنس ( آئس و دیگر منشیات جنہیں سائیکو اسٹی مولینٹس بھی کہا جاتا ہے، ان میں مبتلا افراد کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
سیمینار سے خطاب میں پرنسپل ڈی ایم سی پروفیسر صبا سہیل نے کہا کہ عام طور پر کسی بھی طالبعلم کو غیر معمولی حرکات و سکنات دیکھ کر اسے نظر انداز کرنے یا اسکی تضحیک کرنے کے بجائے اس کے علاج پر توجہ دیتے ہیں اسکی کاؤنسلنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ معمول پر واپس آسکے۔ یہ سارے اقدامات غیر محسوس طور پر کیے جاتے ہیں۔ عبدالقدیر خان انسٹی ٹیوٹ آف بی ہیوریل سائنسز کے سربراہ بریگیڈئیر (ر) شعیب احمد نے کہا کہ کسی بھی شعبے کے نئے آنے والے طلباء اور ملازمت پر آنے والے افراد کا ایک نفسیاتی معائنہ کیا جانا چاہیئے اور اس کے لئے کوئی سوال نامہ بھی ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ اس سے ہمیں معلوم ہو سکے گا کہ نئے آنے والے شخص کو کسی قسم کے ذہنی دباؤ کا سامنا ہے۔ پروفیسر اقبال آفریدی نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں طلباء پر ذہنی دباؤ کم کرنے کے لئے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ہم بھی یہی مشورہ دیتے ہیں کہ مارکس کی وجہ سے کسی ذہنی دباؤ میں مبتلا نہ ہوں۔ امتحانوں کی تیاری میں بھی میانہ روی رکھیں۔ ڈاکٹر فرح اقبال نے کہا کہ نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے محلہ کمیٹی بنائی جائیں جو پہلے ہمارے یہاں بنائی جاتی تھیں اور علماء کو بھی بتایا جائے کہ ان اہم امور پر مذہبی تعلیمات کو اس انداز میں اجاگر کریں تاکہ ذہنوں پر دباؤ کم ہوسکے۔ اصل میں ذہنی دباؤ کو کم کرنے کے لئے لوگ نشے کی عادت کی طرف جاتے ہیں۔
انچارج ڈپارٹمنٹ آف سائیکاٹری ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز ڈاکٹر وش دیو نے کہا کہ عام طور پر نشے کی عادت کسی سے متاثر ہو کر اختیار کی جاتی ہے اور متاثرہ شخص یہ سمجھتا ہے کہ ایک مقررہ وقت تک استعمال کر کے چھوڑ دے گا لیکن بات یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ مبتلا شخص خود کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ چھوڑنا اب اس کے بس کی بات نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں نشے کی عادت کو بد کرداری سمجھا جاتا ہے۔ یہ در حقیقت کردار کی خرابی نہیں بلکہ اسے بھی ایک بیماری سمجھا جائے اور مبتلا شخص سے نفرت یا گھن کھانے کے بجائے اس سے ہمدردی اور اس کے علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے دیگر بیماروں سے اظہار ہمدردی کیا جاتا ہے اس طرح نشے کے عادی افراد بھی ہماری ہمدردی کے مستحق ہیں، ڈاکٹر وش دیو نے کہا کہ دماغ کے مرکز سے ایک کیمیکل ڈوپامین کے اخراج سے خوشی اور طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ ڈوپامین کے اخراج میں عدم توازن سے ذہنی دباؤ بڑھتا ہے۔ نشے کی عادت سے ابتدائی طور پر تو متاثرہ شخص کو ریلیف ملتا ہےلیکن بتدریج کیمیائی عدم توازن ہوجاتا ہے، اس کے علاج کی ضرورت ہے ۔ تقریب کے آخر میں پروفیسر محمد سعید قریشی نے تمام معزز مہمانوں کو اعزازی شیلڈز پیش کیں۔