کراچی میں 6 برسوں کے دوران جعلسازی کے سینکڑوں مقدمات درج ہوئے، فائل فوٹو
 کراچی میں 6 برسوں کے دوران جعلسازی کے سینکڑوں مقدمات درج ہوئے، فائل فوٹو

غیر ملکی یونیورسٹیوں میں داخلے کا گورکھ دھندہ

عمران خان>
غیر ملکی یونیورسٹیوں میں داخلے کے گوکھ دھندا کی پول کھل گئی۔ کراچی سمیت ملک بھر میں شتر بے مہار بنے ایجوکیشن کنسلٹنٹس نوجوانوں سے ایک اندازے کے مطابق سالانہ ایک ارب روپے سے بھی زائد بٹور رہے ہیں۔ بے روزگاری اور خراب معاشی حالات کی وجہ سے بیرون ملک جانے کی خواہش کا یہ ایجو کیشن کنسلٹنٹس خوب فائدہ اٹھانے میں مصروف ہیں۔ 2005ء سے قبل شروع ہونے والے اس کاروبار کے بعد ایجوکیشن کنسلٹنس ملک بھر میں خورد رو پودوں کی طرح پھیلنے لگے۔ تاہم دو دہائیاں گزر جانے کے باوجود ان ایجو کیشن کنسلٹنٹس کے لئے کسی قسم کی قانون سازی کی گئی اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے کو ان کا ریگولیٹر بنا کر ان کو رجسٹرڈ کیا گیا۔ ایف آئی اے میں ایجوکیشن کنسلٹنٹس کے خلاف صرف پاسپورٹ ایکٹ کے تحت کارروائیاں کی گئیں۔ جبکہ زیادہ تر واقعات میں ان کے خلاف دفعہ 420 کے تحت مقدمات قائم ہوئے جن میں انہیں بآسانی ضمانتیں ملنے لگیں۔

’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق کراچی سمیت ملک بھر میں ایجوکیشن کنسلٹنسی کے نام پر سرگرم مافیا کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ بعض ایجوکیشن کنسلٹنٹ نوجوانوں سے بھاری رقم لے کر جعلی تعلیمی دستاویزات بنوا کر دیتے ہیں یا پھر ان نوجوانوں کی فائلوں کو بعض بینک افسران کی ملی بھگت سے بینک لون لینے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ان بینکوں میں بیرون ملک جانے والے امیدواروں کے نام پر اکاؤنٹس کھلوائے جاتے ہیں اور 12 لاکھ سے 16 لاکھ روپے تک لون لے کر اس کاؤنٹ میں ڈپازٹ کروادیا جاتا ہے۔ جس کے عوض لون کی مالیت کا 10فیصد امیدوار سے بطور رشوت لیا جاتا ہے۔ یہ جعلی بینک اسٹیٹمنٹ ایجوکیشن کنسلٹنٹ سفارت خانے میں پیش کرتے ہیں اور ان پر ویزے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ایف آئی اے ذرائع کے مطابق اب تک ہونے والے کئی مقدمات کی تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ اس طرح کی جعلسازیاں ملک بھر میں پھیلے اکثر ایجوکیشن کنسلٹنٹ کر رہے ہیں۔ جن کا خمیازہ بعد ازاں ان جعلی دستاویزات پر بیرون ملک نوجوانوں کو ڈی پورٹ یا گرفتاریوں کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ ایف آئی اے کے ایک سینئر افسر کا کہنا ہے کہ ایجوکیشن کنسلٹنٹ کا اصل کام طالب علم اور تعلیمی ادارے کے درمیان پل کا کر دار ادا کرنا ہوتا ہے۔

یعنی وہ طالب علم کو اس کی استعداد اور خواہش کے مطابق غیر ملکی تعلیمی ادارے کی تفصیل بتا دے اور اس میں داخلہ لینے کے مراحل کامیابی سے طے کرنے کا راستہ دکھا دے یا اس کی تیاری کروا دے۔ تاہم شہر میں ایجوکیشن کنسلٹنٹ نہ صرف تعلیمی اداروں کی تفصیل بتاتے ہیں۔ ساتھ ہی لاکھوں روپے بٹورنے کے لئے ویزے کے حصول تک تمام کام اپنے ذمے لے لیتے ہیں۔ خود ہی طالب علم کے تعلیمی کاغذات فارن آفس سے تصدیق کرواتے ہیں۔ اس کا پاسپورٹ اپنے پاس رکھ کر تعلیمی ادارے میں اس کا داخلہ فارم پر کر کے بھیج دیتے ہیں۔بعد ازاں اس کے لئے بینک اسٹیٹ منٹ تیار کروا کر سفارت خانے سے اس کا ویزہ بھی حاصل کر نے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور اگر کسی کا ویزہ لگ جائے تو ان کے پاس 10 اور امیدوار بھی آجاتے ہیں اور آنکھیں بند کر کے رقوم دے دیتے ہیں۔

ایف آئی اے ذرائع کے بقول کوئی بھی طالب علم دنیا بھر کے تمام تعلیمی اداروں کی داخلہ پالیسی اور طریقہ کار کے حوالے سے انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات بآسانی حاصل کر سکتا ہے اور خود تمام مراحل طے کر سکتا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض ایجوکیشن کنسلٹنٹس کا کاروبار اس لئے بھی چمکا ہوا ہے کہ برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت کئی دیگر ملکوں میں اچھے اور معیاری تعلیمی اداروں کے ساتھ ایسے تعلیمی ادارے بھی کثرت سے موجود ہیں، جہاں پر ہفتہ واری چھوٹے موٹے کورسز کروائے جاتے ہیں اور کئی ایجوکیشن کنسلٹنٹ ان اداروں کے لئے طالب علموں کی ریکروٹمنٹ کر رہے ہیں۔ کیونکہ ایسے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے والے طالب علم صرف ایجوکیشن کیلئے جانے کے بجائے ملازمت اور شہریت حاصل کرنے کے خواہشمند بھی ہوتے ہیں، چھوٹے اور غیر معروف غیر ملکی تعلیمی اداروں میں داخلہ دلوانے کے بہانے ایجو کیشن کنسلٹنٹ ہزاروں افراد کو بیرون ملک بھجوا بھی چکے ہیں جو کہ بعدازاں وہیں سلپ ہوجاتے ہیں یا پھر ساتھ ملازمت کرنے لگتے ہیں۔ ایسے غیر ملکی ادارے پاکستان میں موجود ایجوکیشن کنسلٹنٹ کے بھجوائے گئے طالب علموں کے کوائف پر داخلے کی منظوری کا لیٹر ارسال کر دیتے ہیں، جس کی بنیاد پر اس ملک کا سفارت خانہ پاکستان کے طالب علم کو ویزہ جاری کر دیتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود یہ تمام چیزیں انسانی اسمگلنگ کے زمرے میں آتی ہیں، کیونکہ ایجوکیشن کنسلٹنٹ بغیر کسی لائسنس اور رجسٹریشن کے یہ سارے کام کرتا ہے اور لاکھوں روپے بٹور لیتا ہے۔

ایف آئی اے ذرائع کے مطابق کراچی میں گزشتہ 6 برسوں کے دوران سینکڑوں ایجوکیشن کنسلٹنٹس کے خلاف مقدمہ درج ہوئے ہیں۔ جبکہ ان کے ہاتھوں لٹنے والے درجنوں متاثرین کی درخواستوں پر انکوائریاں بھی چل رہی ہیں۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ ایجوکیشن کنسلٹنٹس کو اسی طرح سے وفاقی و صوبائی اداروں کے قوانین کا پابند بنایا جائے جس طرح ٹریول ایجنٹ اور ورک پروموٹرز ہیں اور ان کیلئے ضابطہ اخلاق کا تعین کیا جائے، جس میں ان کی فیسوں کا پیمانہ بھی مقررکیا جائے۔ اس وقت شہر میں سب سے زیادہ ایجوکیشن کنسلٹنٹ کے دفاتر گلشن اقبال ٹاؤن میں ہیں۔ خصوصاً حسن اسکوائر سے لے کر نیپا چورنگی اور نیپا چورنگی سے لے کر گلشن چورنگی تک سڑک کے دونوں اطراف کی عمارتوں میں سینکڑوں کی تعداد میں ایجوکیشن کنسلٹنٹ کے دفاتر قائم ہیں۔ یہاں پر یہ عالم ہے کہ ایک کمرے کے دفتر میں بھی ایجوکیشن کنسلٹنٹ بیٹھا ہوا ہے۔ جبکہ لاتعداد ایجوکیشن کنسلٹنٹ ایسے ہیں، جنہوں نے اپنے دفاتر کے باہر بورڈ آویزاں نہیں کئے ہیں۔ یہ ایجو کیشن کنسلٹنٹ اپنے سب ایجنٹوں اور اپنی پی آر کی وجہ سے خفیہ طور پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس وقت ایجو کیشن کنسلسٹنٹ 25 ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک کنسلٹنسی فیس وصول کر رہے ہیں، جوکہ ناقابل واپسی ہوتی ہے۔ اگر ایک ایجوکیشن کنسلٹنٹ کے پاس مہینے میں 100کسٹمرز بھی آئیں تو اس کے پاس لاکھوں روپے جمع ہوجاتے ہیں جوکہ ناقابل واپسی ہوتے ہیں۔ یہ ایجوکیشن کنسلٹنٹ ٹیکس کی مد میں ایک پیسہ بھی حکومت کو ادا نہیں کرتے، جبکہ دوسری جانب ایک ٹریول ایجنٹ کام شروع کرنے سے قبل حکومتی ادارے ٹورازم ڈپارٹمنٹ کو ساڑھے تین لاکھ روپے ادا کر کے لائسنس حاصل کرتا ہے اور لاکھوں روپے فیس ادا کر کے اپنی کمپنی رجسٹرڈ کرتا ہے اور حاصل ہونے والے منافع پر انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کو ٹیکس بھی ادا کرتا ہے۔ ایجوکیشن کنسلٹنٹسی کے دفاتر پر کئے گئے سروے میں معلوم ہوا ہے کہ گلشن اقبال ٹاؤن کے بعد سب سے زیادہ دفاتر کلفٹن ٹاؤن میں ہیں۔ کراچی سمیت ملک بھر میں ایجوکیشن کنسلٹنٹ کے کاروبار میں 2005ء کے بعد کئی گناہ اضافہ ہوا ہے۔

اس حوالے سے ایف آئی اے افسران حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایجوکیشن کنسلٹنٹس کے ہاتھوں لٹنے والے شہریوں کی درخواستو ں کا ڈھیر بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود حکومت کی جانب سے اب تک ان کے لئے قانون سازی نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی ان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے کوئی قدم اٹھایا گیا ہے۔ ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایجوکیشن کنسلٹنٹس کی جعلسازیوں کے حوالے سے درج ہونے والے مقدمات کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے وفاقی حکومت کو متعدد لیٹرز ارسال کئے گئے ہیں، جن میں ایجوکیشن کنسلٹنٹس کو منسٹری آف ٹورازم یا پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منسلک کرنے اور ان کیلئے لائسنس لازمی قرار دیئے جانے کی سفارشات کی گئی ہیں۔ تاہم ان لیٹرز کے جواب میں اب تک کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

ایجو کیشن کنسلٹنٹ کے دفاتر اس طرح سے ڈیزائن کئے جاتے ہیں کہ ان میں داخل ہونے والے نوجوان فوری طور پر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں۔ زیادہ تر دفاتر میں چھوٹے چھوٹے کیبن بنانے کے علاوہ ایک معقول سائز کا ہال نما کمرہ لازمی ہوتا ہے۔ دفاتر میں لیپ ٹاپ کمپیوٹرز کے علاوہ ماڈرن اطوار کی حامل خواتین اسٹاف لازمی ہوتی ہیں۔ جبکہ ہال نما کمرے میں ہر ایجوکیشن کنسلٹنٹ مناسب سائز کا ایل سی ڈی ٹی وی اسکرین لگا کر رکھتا ہے، جس میں امیدواروں کو غیر ملکی تعلیمی اداروں اور ان کے ایڈمیشن مراحل کے حوالے سے ویڈیوز دکھائی جاتی ہیں۔ جبکہ بعض ایجوکیشن کنسلٹنٹ دفاتر میں امیدواروں کو ویڈیو لنک کے ذریعے بیرون ملک مقیم افراد سے رابطہ کراتے ہیں۔ ہر ایجوکیشن کنسلٹنٹ نے اپنے رجسٹریشن فارم تیار کر رکھے ہیں۔ دفاتر میں آنے والے افراد سے پہلے ان کی استعداد پوچھی جاتی ہے جس کے بعد ان کو ان کی خواہش کے مطابق ملکوں کے تعلیمی اداروں کی ایڈمیشن ڈیٹیل بتائی جاتی ہے۔ یہ تمام تفصیل ایجوکیشن کنسلٹنٹ انٹر نیٹ سے گوگل سرچ انجن سے حاصل کرتے ہیں اور ان غیر ملکی تعلیمی اداروں کی ویب سائٹ سے ان کے داخلہ فارم بھی ڈاؤن لوڈ کر کے ان کے کلر پرنٹ آؤٹ نکال لیتے ہیں۔

اس حوالے سے امیگریشن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ٹریول ایجنٹ بیرون ملک جانے کے امیدوار سے مقررہ فیس سے زائد وصول کرے تو اس کے خلاف فوری طور پر امیگریشن کی زیر دفعہ 22A کے تحت مقدمہ قائم ہوجاتا ہے اور اگر کوئی ٹریول ایجنٹ بغیر لائسنس کے فیس وصول کرے اور بیرون ملک بھیجوانے کے مراحل طے کرے تو اس پر زیر دفعہ 22B کے تحت انسانی اسمگلنگ کا مقدمہ قائم ہو سکتا ہے، جن میں 7 سے 14برس قید کی سزا اور لاکھوں روپے جرمانے بھی ہوتے ہیں۔ تاہم یہی جرم ایجوکیشن کنسلٹنٹ کرے تو اس کے خلاف پی پی سی کی زیر دفعہ 420کے علاوہ کوئی دوسری دفعہ ہی نہیں لگائی جا سکتی ہے، جس میں یہ ایجوکیشن کنسلٹنٹ بآسانی ضمانت بھی حاصل کر لیتے ہیں اور کیس بھی معمولی نوعیت کا ہوتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے۔

امیگریشن ماہرین کے مطابق قانونی اعتبار سے ٹریول ایجنٹ شہریوں کے اصل پاسپورٹ ویزے کے حصول کے لئے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں تاہم ایجو کیشن کنسلٹنٹ کے پاس اس قسم کا کوئی اختیار نہیں ہوتا ہے اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس پر (غیر قانونی پاسپورٹ پزیشن ) کی دفعہ کے تحت مقدمہ ہوسکتا ہے تاہم اس کے باجود شہر بھر میں پھیلے ہوئے کئی ایجو کیشن کنسلٹنٹ نہ صرف شہریوں سے اصل پاسپورٹ لے کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں بلکہ ان کو مختلف بینکوں سے جعلی بینک اسٹیٹ منٹ بنوا کر دینے کے علاوہ ان کی تعلیمی اسناد کو فارن آفس سے خود ہی اٹیسٹ بھی کروا لیتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں غیر قانونی ایجنٹی کے ذمرے میں آتی ہیں تاہم ان کے لئے کسی قسم کا قانون موجود نہ ہونے کی وجہ سے یہ اپنے آپ کو ایجو کیشن کنسلٹنٹ ( تعلیمی ویزوں کے لئے مشاورت کے ماہرین ) ظاہر کر کے بچ جاتے ہیں۔