اقبال اعوان :
کراچی میں گھی اور پکوان تیل غیرقانونی طریقے سے بنانے والی مافیا نے بقر عید کے دوران ہڈیوں اور چربی کا خاصا اسٹاک جمع کرلیا ہے۔ پولیس سرپرستی میں مضافاتی اور ساحلی آبادیوں کے اندرخالی پلاٹوں پرگھی اور تیل بنانے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔
مضرصحت گھی اور تیل کے خلاف سرکاری ادارے بھی خاموش تماشائی ہیں۔ ہڈی دو روپے کلو اور چربی20 روپے کلوکے حساب سے شہر بھر میں خریدی جارہی ہے۔بیچنے والوں میںگداگر اور نشئی افراد زیادہ سرگرم ہیں۔ واضح رہے کہ بقرعید پر گداگربالخصوص باگڑی عورتوں مردوںکے علاوہ نشئی اور بے روزگار غریب طبقہ عارضی روزگار حاصل کرلیتا ہے۔
شہر بھر میں جانوروں کی کٹائی کے بعد آلائشیں ، چٹائیاں ، ٹوکریا ، رسیاں پھینکی جاتی ہیں جن کو الگ الگ جمع کرلیا جاتا ہے جبکہ آلائشوں کے حوالے سے اوجھڑی مافیا جواوجھڑی ، چشتہ ،بٹ ، آنتیں جمع کراتی ہے جب کہ ہڈیاں اور سرجمع کرنے والے الگ سرگرم ہوتے ہیں۔ جبکہ آلائشوں سے بھی چربی الگ کی جاتی ہے۔ اس طرح الگ الگ سوزوکی کیری پر لوگ ان اشیا کو جمع کرتے ہیں۔اس بار بھی شہر بھر میں چربی کے اسٹال لگائے گئے چربی قصائی بھی آکر فروخت کرتے ہیں شاہ فیصل کالونی نمبرایک پر6 اسٹال لگے ۔
ایک خریدار محمد ارشد کا کہنا تھاکہ بالکل صاف چربی40 روپے ورنہ مکس چربی چھیچھڑے اور گوشت والی چربی 20، 25 ، 30 روپے میں خریدتے ہیں کیوں کہ اس کو صاف بھی کرانا ہوتا ہے۔ علاقوں میں منوں کے حساب سے چربی جمع کی گئی جو راتوں کو ابراہیم حیدری ، ریڑھی گوٹھ ، چشمہ گوٹھ ، سکھن ، شاہ لطیف ٹائون کے علاقوں میں بھیجی گئی جہاں مضرصحت گھی اور تیل تیارکیا جاتا ہے۔ خالی پلاٹوں پر بڑے بڑے لوہے کے کڑہائو میں چربی ڈال کرگرم کی جاتی جس سے آلودہ گھی بن جاتا ہے جس کو ڈرموں میں ڈال کرمزید ریفائن کرانے بھیج دیا جاتا ہے جومختلف ناموں سے گھی اور پکوان تیل کے نام سے شہر بھر کے ہوٹلوں، سموسے پکوڑے والوں ، پراٹھے والوں ، صنعتی زونزکے ہوٹلوں ، ہائی ویز ہوٹلز پر سپلائی کردیا جاتا ہے۔
شہرمیں اچھی کمپنی کا گھی اور تیل 550 روپے کلو فی لیٹر فروخت ہورہا ہے جب کہ یہ مضر صحت گھی تیل دکانداروں کو300 روپے کلو میں فروخت کیاجاتا ہے۔ دوسری جانب کچرا کنڈیوں اور دیگرجگہوں پرآلائشوں کے ساتھ ہڈیا بھی پھینکی جاتی ہیں جانورکے سر مغزنکال کر پھینک دیئے جاتے ہیں جن کو جمع کیا جاتا ہے اورکباڑی بھی انہیںدوروپے کلو خریدتے ہیں شہر بھر میں کاٹے گئے جانوروں کی ہڈیاں ابراہیم حیدری ساحل پر’’ہڈی مل‘‘ کے مقام پر پلاٹوں پر قائم بوائیلر نما کارخانوں پر بھیجی جاتی ہیں ان ہڈیوں کو سکھایا جاتا ہے اور پھر بوائیلر میں ڈال کر گرم کیا جاتا ہے جس کے نیچے سے آلودہ گھی نکلتا ہے جس کو ڈرموں میں بھرکر ریفائن کرکے مختلف ناموں سے فروخت کیا جاتا ہے ۔
بقرعید کا سیزن ہڈی اور چربی والوں کا سال بھر کا اہم سیزن ہوتا ہے اور یہ لوگ اتنا اسٹاک جمع کرلیتے ہیں کہ کئی ماہ تک کارخانے اورکڑہائو میں گرم کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ساحلی علاقوں کے علاوہ شاہ لطیف ٹائون ، سکھن ، سرجانی ،معمار صنعتی ایریا، منگھوپیر، بلدیہ میں بھی ہڈیوں اور چربی سے گھی بنایا جاتا ہے۔ طبی ماہرین اس کو انسانی صحت کے لئے سخت نقصان دہ قرار دے چکے ہیں ۔چربی یا ہڈی کو گرم کرکے گودا نکالا جاتا ہے اور ریفائن کرلیا جاتا ہے۔ تمام حفاظتی پراسزنہیں کئے جاتے ہیں۔
سندھ حکومت کے ادارے، پولیس کارروائی کے بجائے سرپرستی فراہم کرتے ہیں۔ دوسری جانب اوجھڑی مافیا کے خلاف پہلی مرتبہ کارروائی ہوئی ہے۔ تاہم زیادہ فرق نہیں پڑا۔ شہر بھر میں لاکھوں جانورکٹتا ہے گلیوں ،کچرا کنڈیوں سے اوجھڑی اٹھاکرگداگر مرد اور عورتیں اِدہر اُدھر لے جاتے ہیں۔ اوجھڑی ، بٹ، چشتہ ، آنتیں الگ الگ کرلی جاتی ہیں۔ بٹ کا استعمال شہرمیں زیادہ ہے جسے پکا کر فروخت کیا جاتا ہے اور اس کو ابال ریشہ کرکے تھیلیوں میں بھی فروخت کیاجاتا ہے۔
جوڑیا بازار میں چکن ریشے کی طرح ہونے پر سوپ میں ڈالنے یا دیگر استعمال میں چکن پیس کے طور پر فروخت ہوتا ہے۔ بٹ کا سفید ریشہ چکن کے ریشے کی طرح ہوتا ہے۔ اوجھڑی ،چشتہ ، آنتیں بیرون ملک بھجوانے والے لوگ بھی یا ان کے مختلف فوڈزکی اشیا بناکر بیرون ملک بھجوانے والے مافیا کے لوگ اپنا کام کرتے ہیں ۔ شہر میں نشئی ، بے روزگار افراد چٹائیاں ، ٹوکریاں، رسی اور سجاوٹ کی اشیا کو دھوکر دوبارہ کارآمد بنانے کے لئے سرگرم ہیں۔ سندھ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے تین روز کے دوران 63 ہزار ٹن آلائشیں شہر سے اٹھا کرخندقوں میں دفن کردی ہیں حالانکہ اب بھی کچرا کنڈیوں ، سڑک کنارے، میدانوں ، پارکوں کے اطراف الائشیں موجود ہیں اور مافیا کے کارندے ان میں سے اپنی ضرورت کی چیزیں نکال رہے ہیں۔