سندھ(اُمت نیوز)صدارتی ایوارڈ یافتہ سندھی لوک گلوکار الن فقیر کو مداحوں سے بچھڑے 23 برس بیت گئے ہیں لیکن اُن کی یاد آج بھی لاکھوں دلوں میں زندہ ہے سندھی زبان سے عدم واقفیت کے باوجود اُن کی پرسوز آواز کے لاکھوں شیدائی آج بھی دنیا بھر میں موجود ہیں۔ الن فقیر 1932ء کو سندھ کے ضلع جامشورو میں پیدا ہوئے تھے اور اُنھوں نے صوفیانہ کلام گا کر ملک گیر شہرت حاصل کی اُنھوں اردو اور سندھی میں قومی ترانے بھی گائے تھے اُن کی گائیگی کا انداز اس لیے منفرد تھا کہ وہ گلوکاری کے ساتھ ساتھ اعضاء کی شاعری بھی کرتے تھے۔ الن فقیر کے والد ایک ڈھولچی تھے جوکہ شادی اور دیگر تقریبات میں ڈھول بجانے کے علاوہ گانے بھی گایا کرتا تھے۔ الن فقیر اگرچہ صوفی
تھے لیکن اُنہوں نے فقیر تخلص کا انتخاب کیا وہ گھر بار چھوڑ کر حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مزار پر سکونت پذیر ہو گئے۔
الن فقیر بنیادی طور پر اُن پڑھ تھے لیکن خدا نے اُنھیں کمال کا حافظہ عطاء کیا تھا وہ جو ایک بات سن لیتا تھے اُسے ازبر ہو جاتی تھی وہ دربار شاہ عبدالطیف بھٹائی پر آنے والے عقیدت مندوں کو دیکھتے اور اُن سے شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام سنتا وہیں پر الن فقیر نے شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام گانا شروع کیا، وہ 20برس تک اسی دربار پر مقیم رہے اور روحانی فیض حاصل کرتے رہے اُن کی پرسوز آواز ایک مرتبہ ریڈیو حیدر آباد تک پہنچ گئی جس کے بعد وہ ملک گیر شہرت حاصل کر گئے۔ الن فقیر نے اگرچہ سندھی زبان میں گلوکاری کی ہے لیکن اُنہوں نے یہ کلام اُردو میں بھی گایا ہے۔
الن فقیر نے معروف پاپ سنگر محمد علی شہکی کے ساتھ ملک کر گانا بھی گایا جس کے بول تھے ’’اللہ اللہ‘‘ کر بھیا اس گانے نے الن فقیر کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا اُن کی گائیگی میں صوفی ازم کا رنگ جھلکتا تھا۔
حکومت نے الن فقیر کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے سن 1980ء میں اُنہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ انہوں نے شاہ عبدالطیف ایوارڈ، شہباز اور کندھ کوٹ ایوارڈز بھی حاصل کیے۔ الن فقیرعلیل ہوئے اور کراچی کے مقامی اسپتال میں زیرعلاج رہنے کے بعد 4 جولائی سن 2000ء کو اس جہان فانی سے کوچ کرگئے لیکن اُن کی یاد آج بھی لاکھوں دلوں میں زندہ ہے سندھی زبان سے عدم واقفیت کے باوجود اُن کی پرسوز آواز کے لاکھوں شیدائی آج بھی دنیا میں موجود ہیں۔