ارشاد کھوکھر:
ملک بھر میں فوڈ سیکیورٹی کا معاملہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت سے بھی زیادہ خطرناک ہوگیا ہے۔ حکومت کی جانب سے زرمبادلہ کے ذخائر بچانے کے چکر میں گندم درآمد کرنے کیلیے تاخیری حربے استعمال کرنے سے ذخیرہ اندوزوں اور بروکرز پر مشتمل مافیا کی لاٹری لگ گئی۔
ذخیرہ اندوز تقریباً 13 کروڑ بوری گندم (ایک کروڑ 30 لاکھ ٹن) ڈمپ کرکے 390 ارب سے 650 ارب روپے تک منافع حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اوپن مارکیٹ میں گندم مہنگی ہونے سے گزشتہ چھ روز میں فی کلوگرام آٹے کے ایکس مل نرخوں میں ساڑھے 17 روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ جس کے باعث اب ملکی صارفین کو فی کلوگرام آٹا 160 سے 180 روپے تک مل رہا ہے۔ یہی صورتحال جاری رہی تو جلد ہی فی کلوگرام آٹے کے نرخ 200 روپے تک پہنچ جائیں گے۔ جبکہ اب بھی صارفین فی کلوگرام آٹا 45 روپے اضافی نرخوں پر خریدنے پر مجبور ہیں۔ یعنی ملکی صارفین پر صرف آٹے کی مد میں ماہانہ بوجھ 116 ارب روپے سے بڑھ چکا ہے۔ آٹے کے نرخ بڑھنے سے تندوری روٹی، پراٹھے، ڈبل روٹی سمیت تمام بیکری آئٹمز کی قیمتوں میں بھی ایک دو روز میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
’’امت‘‘ کی تحقیقات کے مطابق حال ہی میں حکومت نے جو ڈیجیٹل مردم شماری کرائی ہے۔ اس کے اعدادوشمار کے مطابق چاروں صوبوں کی آبادی 24 کروڑ 95 لاکھ سے زائد ظاہر ہوئی ہے۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی 60 لاکھ آبادی اس کے علاوہ ہے۔ اس حوالے سے عالمی سطح کے فارمولے کے مطابق فی فرد، گندم سے بنی ہوئی اشیا کی سالانہ ضرورت 124 کلوگرام ہے۔
صرف چاروں صوبوں کی پچیس کروڑ آبادی کو دیکھا جائے تو ملک بھر میں آٹے، میدے، سوجی، بیکری آئٹمز سمیت گندم سے تیار تمام مصنوعات سمیت ملک میں سالانہ تین کروڑ 10 لاکھ ٹن گندم (31 کروڑ بوری) کی ضرورت ہے۔ اس طرح ملک بھر میں ماہانہ گندم کی ضرورت پچیس لاکھ 83 ہزار ٹن یعنی 2 کروڑ 58 لاکھ 30 ہزار بوری ہے۔ تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ملک کی سالانہ تین کروڑ 10 لاکھ ٹن گندم کی طلب کے مقابلے میں رواں سیزن کے دوران ملک بھر میں گندم کی پیداوار دوکروڑ 90 لاکھ ٹن سے زیادہ نہیں ہو سکی۔ یوں آٹے اور دیگر اشیا کی ضرورت پوری کرنے کیلیے کم سے کم 20 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ یہ بات وفاقی حکومت کے علم میں ہے۔
اس کے علاوہ ہنگامی صورتحال کے پیش نظر 10 لاکھ ٹن گندم کے ذخائر ضرورت کے مقابلے میں زیادہ ہونے چاہئیں۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ تقریباً 30 لاکھ ٹن گندم درآمد کی جائے گی۔ لیکن زرمبادلہ کے چکر میں موجودہ وفاقی حکومت گندم درآمد کرنے کے حوالے سے جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔ تاہم اس کا تمام تر فائدہ ذخیرہ اندوز اٹھارہے ہیں۔ ذخیرہ اندوز مافیا کا نیٹ ورک صرف بیوپاریوں وغیرہ تک محدود نہیں۔ بلکہ اس میں کئی اراکین اسمبلی، اعلیٰ حکومتی شخصیات وغیرہ بھی شامل ہیں۔ جن میں سے کئی شخصیات براہ راست گندم کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث ہیں اور کئی مافیا کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔
رواں سیزن کے دوران ملک بھر میں جو دوکروڑ 90 لاکھ ٹن گندم کی پیداوار ہوئی ہے۔ اس کے متعلق یہ حقائق بھی سامنے آئے کہ ماہانہ 25 لاکھ 83 ہزار ٹن گندم کی ضرورت کے حساب سے یکم اپریل 2023ء سے اب تک تقریباً 9 لاکھ 40 ہزار ٹن گندم استعمال ہوچکی ہے اور تقریباً 70 لاکھ ٹن گندم کی سرکاری شعبے میں خریداری ہوئی ہے۔ جو چاروں صوبوں کے محکمہ خوراک اور پاسکو نے خریدی ہے۔ اس طرح ملک میں ہونے والی گندم کی پیداوار میں سے باقی تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ ٹن (13 کروڑ بوری) گندم کے ذخائر ذخیرہ اندوزوں کے پاس اب بھی موجود ہے۔ جس کا وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ کیونکہ ذخیرہ اندوزوں کو پتہ ہے کہ حکومت جلد ہی گندم درآمد نہیں کرے گی اور سرکاری شعبے میں بھی مقررہ ہدف سے گندم کی خریداری کم ہوئی ہے۔ خصوصاً سندھ کے محکمہ خوراک میں مافیا کے کرتوتوں کے باعث 14 لاکھ ٹن گندم کی خریداری کے ہدف کے مقابلے میں بمشکل ساڑھے 7 لاکھ ٹن گندم کی خریداری ہوئی ہے اور سرکاری گندم کا اجرا بھی ستمبر اکتوبر سے قبل ممکن نہیں۔
اگر سرکاری گندم کا اجرا شروع بھی ہوا تو سرکاری شعبے میں گندم کے ذخائر نہ ہونے کے باعث فلور ملوں اور آٹا چکیوں کو ضرورت کے مقابلے میں 50 فیصد سے بھی کم رعایتی نرخوں پر سرکاری گندم جاری ہوگی۔ اس صورتحال میں فلور ملز مالکان بھی زیادہ تر گندم نجی شعبے سے خریدنے پر انحصار کریں گے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ذخیرہ اندوزوں نے 10 ہزار روپے میں خریدی گئی فی کلوگرام گندم کی بوری کے نرخ 13 ہزار ایک سو روپے سے 13 ہزار تین سو روپے تک پہنچادیئے ہیں۔ اوپن مارکیٹ میں گندم کے نرخ یہی رہے تو اوسطاً تین ہزار روپے فی بوری گندم پر منافع خوری کے باعث 13 کروڑ گندم کی بوری پر ذخیرہ اندوزوں کو 390 ارب روپے کی منافع خوری کا موقع ملے گا۔
تاہم اوپن مارکیٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جو صورتحال چل رہی ہے۔ اس کے مطابق اوپن مارکیٹ میں فی سوکلو گرام گندم کی بوری کے نرخ دسمبر تک 15 سے 16 ہزار روپے تک بھی جاسکتے ہیں۔ جس سے ذخیرہ اندوزوں کو 650 ارب روپے تک کی منافع خوری کرنے کا موقع ملے گا اور یہ تمام تر بوجھ آٹے کی صورت میں عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔
تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا کہ عوام کو آٹے کے نرخوں کو کنٹرول کرنے کا ایک واحد راستہ یہ ہے کہ فوری طور پر گندم درآمد کی جائے۔ جس سے ذخیرہ اندوزوں کی کمر ٹوٹ سکتی ہے۔ کیونکہ اس وقت عالمی منڈی میں فی ٹن گندم کے نرخ 265 ڈالر ہیں۔
ٹرانسپورٹیشن، باردانے سمیت دیگر اخراجات وغیرہ ملاکر فی ٹن گندم ملک میں 300 ڈالر تک آسکتی ہے۔ اس حساب سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 285 روپے کے حساب سے دیکھا جائے تو درآمدی گندم فی ٹن تقریباً ساڑھے 8 ہزار (فی کلوگرام 85 سے 90 روپے ) میں پڑے گی۔ جس سے ذخیرہ اندوزوں کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ کیونکہ اس وقت مقامی منڈی میں ذخیرہ اندوزوں نے فی کلوگرام گندم کے نرخ 131 روپے سے 133 روپے تک پہنچا دیئے ہیں۔ اور صورتحال یہی رہی تو مافیا فی کلوگرام گندم کے نرخ 150 سے 160 روپے تک بھی پہنچاسکتی ہے۔ جس کے بعد فی کلوگرام آٹے کے نرخ 200 روپے ہوجانے کو کوئی نہیں روک سکتا۔
جہاں تک گندم درآمد کرنے کی بات ہے، تو 30 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے پر زیادہ سے زیادہ 90 کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ ملک سے جائے گا۔ پھر وہ گندم سرکاری شعبے میں درآمد کی جائے یا نجی شعبے میں۔ لیکن حکومت اپنی مصنوعی کارکردگی ظاہر کرنے کیلئے فوری طور پر گندم درآمد کرنے سے کترارہی ہے۔ اس کے برعکس آٹا مہنگا ہونے سے ملکی صارفین پر صرف آٹے کی مد میں ماہانہ بوجھ 116 ارب 23 کروڑ روپے یعنی 40 کروڑ ڈالر 78 لاکھ روپے پڑ رہا ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گندم مہنگی ہونے سے فلور ملز مالکان نے مجبوراً آٹے کے نرخوں میں اضافہ کردیا ہے۔
گزشتہ 6 روز میں فی کلوگرام آٹے کے نرخ میں ساڑھے 17 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ 4 جولائی کو فی کلو آٹے کے نرخ میں 9 روپے کا اور گزشتہ روز مزید ساڑھے 8 روپے کا اضافہ کیا گیا۔ اب کراچی کے فلور ملز مالکان فی کلوگرام ڈھائی نمبر آٹا 48 روپے 50 پیسے، میدہ فائن 52 روپے 50 پیسے، ایکس مل نرخوں کے حساب سے سپلائی کر رہے ہیں۔ ایسے میں باقی رہی سہی کسر ریٹیلر نکال رہے ہیں۔ جو عوام کو ڈھائی نمبر آٹا 160 روپے سے 165 روپے اور میدہ فائن 165 روپے میں فروخت کر رہے ہیں۔ جبکہ پیور چکی آٹے کے ایکس چکی نرخ 170 روپے ہو گئے ہیں۔
صارفین کو فی کلو 175 روپے سے 180 روپے میں مل رہا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس عوام کو فی کلو آٹا اوسطاً 125 روپے سے 130 روپے تک ملنا چاہئے۔ اس طرح فی کلوگرام آٹا 45 روپے مہنگا ملنے کے باعث ملکی صارفین پر صرف آٹے کی مد میں ماہانہ بوجھ 116 ارب روپے (40 کروڑ ڈالر) سے بڑھ گیا ہے۔ اور عوام یہ تمام تر بوجھ صرف اس لئے برداشت کر رہے ہیں کہ حکومت ڈالر بچانے کے چکر میں ہے۔
آٹے کے نرخوں کو اگر دیکھا جائے تو ماسوائے راولپنڈی ریجن کے پنجاب اور اندرون سندھ فی کلو آٹے کے نرخ کراچی، کے پی کے اور بلوچستان کے مقابلے میں 5 سے 8 روپے کم ہوتے ہیں۔ اس کا سبب یہ بھی ہے کہ پنجاب میں پوٹھوہار اور راولپنڈی ریجن میں گندم کی پیداوار نہیں ہوتی۔ پنجاب کے باقی علاقوں اور سندھ میں گندم کی فصل کی پیداوار بہتر ہوتی ہے۔ اس لئے گندم کے ذخائر انہی علاقوں میں ہوتے ہیں۔ کراچی، کے پی کے اور کوئٹہ، چمن وغیرہ میں آٹے کے نرخوں میں اضافے کی ایک وجہ گندم کی ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات زیادہ ہونا بھی ہیں۔ تاہم اس وقت جو صورتحال ہے۔ اس میں سب سے زیادہ آٹا کراچی میں مہنگا ہے۔