محمد اطیر فاروقی :
ناظم آباد کراچی کی رہائشی رقیہ اب 19برس کی ہے۔ اسے 8 برس کی عمر میں شوگر (ذیابیطس) تشخیص ہوئی تھی۔ ایک روز اسے ٹائفائیڈ ہوا۔ ڈاکٹر نے والدین کو بچی کا ٹیسٹ کرانے کا کہا۔ اس ٹیسٹ کے ذریعے ہی معلوم ہوا کہ بچی کی شوگر خطرناک سطح پر پہنچی ہوئی ہے۔ یہ انکشاف والدین کے لیے انتہائی پریشان کن تھا۔ جو اپنی بچی کو ایک چائلڈ اسپیشلسٹ کے پاس لے گئے۔
چائلڈ اسپیشلسٹ نے بچی کے ٹیسٹ ایک معروف لیبارٹری سے کرائے تو شوگر 450 تھی۔ یہ سب کچھ غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے والدین کے لئے اس قدر تکلیف دہ تھا کہ کئی روز وہ سو نہ سکے۔ ڈاکٹر نے بچی کے لئے 3 ٹائم انسولین تجویز کی تھی۔ شروع میں بچی کی شوگر ہر دو گھنٹے بعد چیک کرنے کا کہا گیا تھا۔ اب دن میں دو بار چیک کی جاتی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اب ساری عمر رقیہ کو انسولین کے سہارے چلنا ہوگا۔
غریب والدین بھی حالات سے سمجھوتا کر چکے ہیں۔ لیکن اس مہنگائی کے دور میں بچی کی دواؤں پر اضافی اخراجات نے ان پر مالی بوجھ بڑھا دیا ہے۔ رقیہ کی انسولین، سرنجوں اور ہر ماہ ڈاکٹر کی فیس پر تقریبا ساڑھے 5 سے 6 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر رقیہ کے والد کی تنخواہ بھی معمولی ہے۔
بزرٹا لائن کی رہائشی 13 سالہ مریم کو بھی ایک برس پہلے شوگر تشخیص ہوئی تھی۔ اس کے والدین کے لئے بھی یہ افتاد کسی قیامت سے کم نہیں تھی۔ مریم کا وزن دن بدن کم ہو رہا تھا۔ با ربار پیشاب آتا تھا۔ پیاس بھی حد سے زیادہ لگتی تھی۔ جس پر اس کے والدین اسے ایک چائلڈ اسپیشلسٹ کے پاس لے گئے۔ ٹیسٹ کرایا گیا تو شوگر 600 سے اوپر نکلی۔ یہ سنتے ہی والدین کا رنگ فق ہوگیا۔ شوگر کو عموما جنیات کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔
حیران کن عمل یہ ہے کہ مریم کی والدہ اور والد کے علاوہ دادا دادی کو بھی شوگر کا مرض لاحق نہیں۔ کیس ہسٹری معلوم کرنے کے بعد چائلڈ اسپیشلسٹ کا کہنا تھا کہ حد سے زیادہ کولڈ ڈرنک اور فاسٹ فوڈ کے استعمال کے سبب مریم کو شوگر یا ذیابیطس ہوئی۔ بچی 4 روز تک اسپتال میں داخل رہی۔ اس دوران اسے انسولین کی خوراک دی جاتی رہی۔ شوگر کا لیول 200 تک آنے کے بعد ڈاکٹروں نے اسے اسپتال سے جانے دیا۔ اب مریم کو صبح شام انسولین کی 2 خوارکیں دی جاتی ہیں۔ شروع میں 4 ڈوز دی جاتی تھیں۔ ڈاکٹر نے کولڈ ڈرنک، فاسٹ فوڈ اور جنک فوڈ سمیت میٹھی چیزوں پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔
یہ ایک رقیہ اور مریم کی کہانی نہیں بلکہ اس وقت لاکھوں پاکستانی بچے ’’خاموش قاتل‘‘ قرار دیے جانے والے اس مرض میں مبتلا ہیں۔ اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔اس میں ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو دونوں اقسام میں شوگر شامل ہے۔
’’امت‘‘ نے بچوں کے تیزی کے ساتھ شوگر میں مبتلا ہونے کی وجوہات معلوم کرنے کے لئے ماہرین سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ فاسٹ فوڈ، کولڈ ڈرنک، حد سے زیادہ اسمارٹ ٹی وی، ٹیبلیٹس اور موبائل فون کا استعمال، اس کی بنیادی وجوہات ہیں۔ جسمانی سرگرمیوں کا فقدان بھی ایک بڑا سبب ہے۔ کیونکہ آج کل کے دور میں محلوں اور اسکولوں میں کھیل کے میدان دستیاب نہیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ والدین کو شوگر ہونے کی وجہ سے بچوں میں شوگر کے امکانات 75 فیصد بڑھ جاتے ہیں۔ اگر دونوں میں سے کسی ایک کو شوگر ہو تو پھر یہ امکان 25 فیصد تک ہوتا ہے۔ جتنی کم عمری میں شوگر ہوگی۔ اتنی ہی طویل عرصے تک چلتی ہے۔
پاکستان میں بچوں میں شوگر کے حوالے سے سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں۔ تاہم 2021ء کے اختتام پر ذیابطیس سے متعلق سیمنا ر میں ’’پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی‘‘ کے پبلکیشن سیکریٹری ڈاکٹر مسرت ریاض نے بتایا تھا کہ تقریباً ایک کروڑ پاکستانی بچے ذیابیطس کا شکار ہیں۔ اگر ان اعدادوشمار کو بہت زیادہ تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی شوگر میں مبتلا بچوں کی تعداد کسی بھی طرح لاکھوں سے کم نہیں۔
ملک کی دو تہائی آبادی اس وقت موٹاپے کی وجہ سے ٹائپ ٹو ذیابیطس کا شکار ہے۔ جبکہ گزشتہ 3 برسوں میں ایک کروڑ 50 لاکھ افراد شوگر کا شکار ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان ذیابیطس سے متاثرہ دنیا کا تیسرا ملک بن چکا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ذیابیطس ایک ایسی بیماری ہے۔ جو اندر ہی اندر انسان کو کھاتی ہے۔ اسی لیے اسے خاموش قاتل کہا جاتا ہے۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کے شکار 25 فیصد افراد کو اکثر اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔
ماہر ذیابیطس پروفیسر ڈاکٹر زمان شیخ کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’پاکستان میں 3 کروڑ 30 لاکھ افراد ذیابطیس کا شکار ہیں۔ جس میں 5 فیصد تعداد بچوں کی ہے۔ 12سال تک کے بچوں میں ٹائپ 2 شوگر پائی جاتی ہے۔ جبکہ 12 سال سے کم عمر کے بچے ٹائپ ون میں مبتلا ہوتے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر زمان کے بقول بچوں میں ذیابطیس کی وجہ اسکرینگ ٹائمنگ کا زیادہ ہونا ہے۔ جس میں ٹی وی، موبائل فون، کمپیوٹر اور آئی پیڈ کا زیادہ استمعمال شامل ہیں۔ بچے جسمانی ورزش کے بجائے ان چیزوں کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ وہ گھر کے معیاری کھانوں کے بجائے فاسٹ فوڈ کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بچوں میں بھی شوگر زیادہ بڑھ رہی ہے۔
ٹائپ ون کی شوگر آٹو امنیون ہوتی ہے۔ جبکہ ٹائپ 2 کے شوگر میں 50 فیصد جنیاتی طور پر والدین سے منتقل ہوتی ہے۔ باقی 50 فیصد کی وجہ ورزش کا نہ ہونا اور غیر معیاری کھانا ہے۔ ڈاکٹر زمان کے مطابق ’’ہمارا غیر صحتمندانہ طرز زندگی موٹاپے اور شوگر جیسے امراض کا سبب بن رہا ہے۔ اگر بچوں کو موٹاپے اور ذیابطیس سے بچانے کے اقدامات نہ کئے گئے تو خدشہ ہے کہ پاکستان میں شوگر کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے‘‘۔
امراض برائے اطفال کے ڈاکٹر اظہر چغتائی کا اس حوالے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ بچے جن کا لبلبہ انسولین نہ بنا رہا ہو یا وہ پیدائشی طور پر یا کسی اور وجہ سے خراب ہو گیا ہو، یا انسولین بننا کم ہو چکی ہو یا بڑھ تو رہی ہو لیکن درست طریقے سے کام نہیں کر رہی ہو تو ایسے بچوں کو شوگر ہو جاتی ہے۔ این آئی سی ایچ کے ڈاکٹر یاسر کا بھی یہی کہنا ہے کہ ایک سال سے 12 سال تک کی عمر کے بچوں کو ذیابطیس ٹائپ ون آٹو امینون کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس عمر کے بچوں میں ذیایطیس ٹائپ ون کا مرض البتہ کم ہے۔ ایسے بچوں کو محض انسولین دی جاتی ہے۔
ڈاکٹر یاسر کے بقول ایک سال سے 12 سال تک کے بچوں کو ذیابطیس لاحق ہونے کی 100 فیصد وجوہات کا پتہ چلانے کے لئے ریسرچ جاری ہے۔ تاہم 12 سال سے زائد عمر کے بچوں میں ٹائپ 2 شوگر کی وجوہات فاسٹ فوڈ، سافٹ ڈرنک، موبائل اور کمپوٹر کا زیادہ استعمال ہے۔