ڈھاکہ (امت نیوز)بنگلہ دیش کی بھارت نواز وزیر اعظم حسینہ واجد کیخلاف اپوزیشن کے ملک گیر احتجاج میں لاکھوں افراد شامل ہوگئے- ڈھاکہ میں 13 کلو میٹر طویل ریلی نکالی گئی جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی سخت احتجاج کیا گیا۔ مظاہرین پر پولیس اور حکمران جماعت کے حامیوں کی فائرنگ سے ایک شہری جاں بحق جبکہ 200 زخمی ہوگئے۔ کئی مقامات پر حسینہ واجد کی جماعت کے کارکنوں نے مظاہرین پر حملے بھی کیے ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق حسینہ واجد کیخلاف بدھ کو ڈھاکہ سمیت ملک بھر میں سخت احتجاج کیا گیا۔ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بی این پی کی کال پر اس احتجاج میں اتحادی جماعتوں سمیت لاکھوں عام شہریوں نے بھی شرکت کی۔ ڈھاکہ میں شدید گرمی کے باوجود 13 کلومیٹر طویل احتجاجی ریلی نکالی گئی ، جس میں بہت بڑی تعداد میں لوگ شریک رہے۔ مظاہرین نے وزیر اعظم سے جنوری میں عام انتخابات سے قبل مستعفی ہونے اور غیر جانبدار حکومت قائم کرنے سمیت اس کی نگرانی میں عام انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ حسینہ واجد کیخلاف احتجاج کی کال سابق وزیر اعظم اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیا نے دے رکھی ہے۔حسینہ واجد کی عوامی لیگ 2009 سے دنیا کے آٹھویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک پر حکومت کر رہی ہے اور اس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانی کے الزامات ہیں۔ایک عینی شاہد کا کہنا تھا کہ ڈھاکہ میں شہر کے مختلف حصوں سے کارکنان اور حامی اس مارچ میں شامل ہوئے جو تقریباً 13 کلومیٹر تک پھیلے ہوئے تھے، جس سے ہفتے کے مصروف دن میں مختلف مقامات پر ٹریفک گھنٹوں تک رک گئی۔ ان میں سے بہت سے لوگ جو مارچ میں شریک تھے، ضروری نہیں سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہوں۔ وہ زندگی کے مختلف شعبوں سے آئے تھے، ٹیکسی ڈرائیوروں سے لے کر ٹرک ڈرائیوروں سے لے کر رکشہ چلانے والوں تک بھی سراپا احتجاج تھے، مظاہرین معاشی بحران کی وجہ سے حکومت سے ناراض ہیں۔بی این پی کے ترجمان ظہیر الدین سواپن نے لکشمی پور میں احتجاجی ریلی پر حکمران جماعت کے کارکنوں کی فائرنگ کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں ہمارا ایک کارکن جاں بحق ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے جنوبی ساحلی ضلع میں بی این پی کے سینکڑوں حامیوں پر شاٹ گنوں سے فائرنگ کی جس سے کم از کم 200 افراد زخمی ہوئے۔